پاک افغان تعلقات۔ چوتھاحصہ
افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو پاکستان، سعودی عرب اور یو اے ای نے اسے تسلیم کر لیا جبکہ باقی دنی نے کہا کہ ملا کی حکومت منظور نہیں۔ طالبان شمال کی طرف بڑھے تو شدید ترین جنگ شروع ہو گئی جس میں طالبان مختلف شہر اور صوبے فتح بھی کرتے رہے اور کھوتے بھی رہے اور کھونے کے بعد ایک بار پھر فتح بھی کرتے رہے یوں پورے طالبان دور میں شمال مسلسل حالت جنگ میں رہا۔ شمال میں طالبان کے لئے مزار شریف۔ قندوز اور تخار اہم تھے۔ یہ تینوں طالبان نے فتح کر لئے تھے لیکن ان میں مزار شریف اور قندوز تاریخ کے تین بڑے قتل عاموں کے حوالے سے یاد رکھے جائینگے۔ 1995ء میں طالبان نے شیعہ تنظیم حزب وحدت کے سربراہ عبدالعلی مزاری کو گرفتار کیا ۔ اسے ہیلی کاپٹر کی ذریعے قندھار منتقل کیا جا رہا تھا کہ اس نے دوران پرواز دھینگا مشتی شروع کردی جس سے یہ ہزروں فٹ کی بلندی سے زمین پر آگرا۔ یہ واقعہ ہوا اور گزرگیااور طالبان نے بھی اسے شائد بھلا دیاہو کہ مئی 1997ء میں رشید دوستم سے بغاوت کرکے مزارشریف کا کنٹرول حاصل کرنے والے ازبک لیڈر جنرل مالک نے طالبان کو پیغام بھجوایا کہ جس طرح آپ پختون بیلٹ میں دوستانہ ماحول میں صوبوں کا کنٹرول حاصل کرتے رہے ہیں، اسی طرح میں مزار شریف آپ کے سپرد کرنا چاہتا ہوں، آپ لوگ شہر میں داخل ہوجائیں۔ طالبان ہزاروں کی تعداد میں شہر میں داخل ہوئے اور جب شہر کے وسط تک پہنچے تو ہزاروں کلاشنکوفیں گرجنی شروع ہو گئیں۔ ہر گھر سے فائر آیا اور اس شدت کا آیا کہ نصف گھنٹے میں تین ہزار طالبان لاشوں سے شہر کی سڑکیں اٹی پڑی تھیں اور انسانی خون فی الحقیقت نالے کی شکل میں بہہ رہا تھا۔ یہ واقعہ 30 مئی 1997ء کو پیش آیا۔ اس واقعے کے بعد جنرل مالک نے دعویٰ کیا کہ اس نے یہ حرکت عبدالعلی مزاری کا انتقام لینے کے لئے کی ہے۔ جنرل مالک کو عبدالعلی مزاری سے کوئی غرض نہ تھی بلکہ اصل بات یہ تھی کہ اس نے مزار شریف اپنے باس کو دھوکہ دے کر اس سے قبضہ کیا تھا جس کے سبب وہ ردعمل سے خوفزدہ تھا چنانچہ اس دعوے کے ذریعے اس نے شہر کی دوسری بڑی آبادی شیعہ کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی۔
اگست 1998ء میں طالبان جب مزار شریف پر حتمی حملے کے لئے آئے تو سینکڑوں گاڑیوں میں تقریبا بیس ہزار کی لگ بھگ تعداد میں آئے۔ اور جب شہر میں داخل ہوئے تو انہیں پتہ تھا کہ سڑکوں کے اطراف کا ہر گھر ایک مورچہ ہے۔ پھر طالبان نے بھی وہ کیا جو ان گھروں سے ان کے ساتھ ہوا تھا۔ ازبک افغانستان کی سب سے خونخوار قوم ہے ان خونخواروں کو انہوں نے سکھا دیا کہ یہ زبان ہم بھی جانتے ہیں لیکن انسانیت کے کچھ اصول ہوتے ہیں جن کی پاسداری لازم ہوتی ہے۔ یوں یہ کمیونسٹ اور شیعہ آبادی والا شہر طالبان کے کنٹرول میں آگیا اور نومبر 2001ء تک ان کے کنٹرول میں رہا۔ اس کی سٹریٹیجک اہمیت یہ تھی کہ یہ ازبکستان کے قریب تھا اور رشید دوستم چونکہ ازبک حکومت کا سٹیک تھا جس کے لئے امداد یہیں آتی تھی۔ اس کے بعد قندوز کی باری آئی جو آسانی سے طالبان کے ہاتھ آیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ شمالی افغانستان کا پختون اکثریت والا صوبہ ہے اور افغانستان کے پختون مولویوں سے نہیں لڑتے۔ اس صوبے کی سٹریٹیجک اہمیت یہ ہے کہ یہ تاجکستان کے ساتھ لگتا ہے جو احمد شاہ مسعود مددگار تھا۔ مسعود کو آنے والی امداد کے زمینی اور فضائی راستے قندوز اور تخار سے تاجکستان تک تھے۔ تخار بہت ہی مشکل ثابت ہوا۔ اسے بچانے کے لئے مسعود نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا کیونکہ تخار ہاتھ سے جانے کا مطلب تھا تاجکستان سے مکمل طور پر کٹ جانا اور پنجشیر میں محصور ہوجانا۔ تخار کا دارالحکومت طالقان افغانستان کا آخری بڑا شہر تھا جو نائن الیون سے آٹھ ماہ قبل جنوری 2001ء میں طالبان نے فتح کیا لیکن تخار کے کچھ علاقے اب بھی ان کے کنٹرول سے باہر تھے۔
طالبان کی غلطیاں
طالبان نے اپنے دور حکومت میں جو غلطیاں کیں ان میں کچھ واقعی غلطیاں تھیں جبکہ باقی محض گمراہ کن پروپیگنڈہ۔ حقیقی غلطیاں یہ تھیں۔
(01) اقوام متحدہ کے دفتر میں زبردستی گھسنا اور نجیب اللہ کو قتل کرنا۔ یہ حرکت جن بارہ لڑکوں نے کی تھی انہیں طالبان نے سزا دی لیکن اس سزا کو پبلک نہیں کیا کیونکہ اس سے اس نازک موقع پر نوجوان گھبرا کر پیچھے ہٹ سکتے تھے اور یہ بھی سوچ سکتے تھے کہ ملاعمر نے نجیب جیسے درندے کے قتل پر اتنا برا کیوں منایا ؟ کہیں یہ سب کوئی گیم تو نہیں ؟۔ دفتر میں گھسنا، نجیب کا قتل اور ذمہ داروں کو دی گئی سزا کو پبلک نہ کرنا تینوں ان کی غلطیاں ہیں۔
(02) بامیان کے مجسمے بارود سے اڑانا جس پر انہیں کراچی کے ایک پیر نے اکسایا تھا۔ طالبان اتنا بھی نہ سوچ سکے کہ اگر یہ بت توڑنا اتنا ہی ضروری ہوتا تو کیا سلطان محمود غزنوی انہیں چھوڑتا ؟ اور کیا مصر میں ابولہول کا مجسمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رہنے دیتے ؟
(03) ہر صوبے کے اہم عہدے قندھاریوں کو دینا اور جہاں قندھاری دستیاب نہ ہو وہاں مقامی شخص کو عہدہ ددینا لیکن ایک بیس پچیس سال کا قندھاری لونڈا اس پر بطور نگران مسلط کر دینا۔ حتیٰ کہ اپنے بیرون ملک سفیروں پر بھی یہ لونڈے مسلط کئے۔
(04) محض مالی مجبوریوں کے تحت لڑکیوں کی تعلیم بند کر دینا لیکن اس فیصلے پر عملدرآمد سے قبل پبلک کو اعتماد میں نہ لینا۔
(05) ارجنٹائن کے ساتھ ہونے والے پٹرول پائپ لائن معاہدے پر عملدرآمد میں غفلت برتنا جبکہ امریکہ اس معاہدے کے ہونے پر سیخ پا تھا اور یہ معلوم تھا کہ وہ اسے ناکام کرنے کو بیقرار ہے۔
طالبان کی خوبیاں
(01) انہوں نے اپنے زیر حکومت 95 فیصدی افغانستان کو اسلحے سے پاک کر کے رکھدیا تھا۔ ہزاروں ٹن اسلحے کے مالک کمانڈر وں کے پاس ایک پستول تک نہیں چھوڑا۔
(02) ان کا وزیر اعظم، تمام گورنر اور تمام وزراء مسجدوں اور فٹ پاتھوں پر عام شہریوں کی طرح چلتے پھرتے ہر شخص کو دستیاب تھے۔ یہاں تک کہ جن کی اولاد نہیں تھی وہ اپنے گھروں کا سودا سلف بھی بازاروں سے خود لاتے۔ یوں عوام کو ان کے پیچھے خوار نہیں ہونا پڑتا تھا بلکہ وہ عوام کے بیچوں بیچ ان کی دسترس میں ہوتے۔
(03) ان کا نظام انصاف مفت اور فوری تھا۔ مظلوم کی آہ کو آسمان تک جانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ زیادہ سے زیادہ دو ہفتے میں عدالت فیصلہ سنا دیتی اور ایسا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا جس سے یہ ظاہر ہوا ہو کہ ان کا فوری انصاف کا نظام کسی بے قصور کو سزا دے گیا ہو۔
(04) وزیر اعظم سے لے کر گونر اور وزرا تک کسی سے بھی شکایت ہوتی تو سڑک پر چلتے قاضی سے شکایت کرکے اسے برطرف کروایا جاسکتا تھا اور کئی اہم لوگ برطرف کئے بھی گئے۔
نائن الیون
نائن لیون ہوا تو گویا تم قتل کرے ہو کہ کرامات کرے ہو والی بات ہو گئی۔ واقعے کے صرف 24 گھنٹے کے اندر اندر امریکہ نے تمام 19 ہائی جیکر سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے شناخت کر لئے مگر ان میں سے کسی ایک بھی ہائی جیکنگ کو روک نہ سکا۔ دوسری بات یہ کہ اسامہ بن لادن کو مانگا گیا اور ملا عمر نے انکار کر دیا کہ مہمان کو کسی کے حوالے کرنا ہماری روایت نہیں اور پھر خود اسامہ نے آفر کی کہ چائنا یا کسی بھی غیر جانبدار ملک کے حوالے ہونے کو تیار ہوں۔ عالمی عدالت بنا لی جائے لیکن اسی غیر جانبدار ملک میں کارروائی چلے، امریکہ اس عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرے۔اگر جرم ثابت ہو جائے تو مجھے سزا دیدی جائے، امریکہ نے یہ آفر قبول کرنے سے انکار کیوں کیا ؟وہ خود مدعی، خود پولیس، خود عدالت اور خود جلاد بننے پر ہی کیوں مصر رہا ؟۔ تیسری اور سب سے اہم بات یہ کہ ابھی صرف چند ہفتے قبل امریکی صدر باراک اوباما کی اکڑ پر روس نے دھمکی دی کہ نائن الیون کے حوالے سے ہمارے سٹلائٹس کی مدد سے ملنے والا کچھ نہایت حساس ڈیٹا ہمارے پاس ہے تو صدر باراک اوباما بھگی بلی کیوں بن گئے؟ پتہ نہیں کیوں مگر مجھے تو یہی لگتا ہے کہ رشیا کے پاس جو حساس مواد ہے یہ اس کے اپنے سٹلائٹس سے حاصل کردہ نہیں ہے بلکہ یہ امریکہ کی سب سے خطرناک ایجنسی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے منحرف ہو کر رشیا میں پناہ لینے والے ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن نے رشیا کو فراہم کیا ہے ورنہ رشیا اتنا عرصہ چپ نہ رہتا۔ چوتھی بات یہ کہ امریکہ افغانستان سے جہاز بھر بھر کر القاعدہ اور طالبان کے قیدی گوانتانامو بے لے کر گیا تھا۔ چودہ سال ہو گئے اب تک نائن الیون کا جرم عدالت میں ثابت کیوں نہیں کر سکا ؟۔ یہ وہ چار بنیادیں ہیں جو یہ بات ماننے کی اجازت ہی نہیں دیتیں کہ نائن الیون خود امریکہ کا اپنا منصوبہ نہیں تھا۔
قندوز ایئر لفٹ
نائن الیون کے بعد امریکہ نے پاکستان کو غاروں کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی اور وہ امریکہ کی مدد کے لئے تیار ہوگیا۔ بی 52 بمبار طیاروں نے افغانستان پر لاکھوں ٹن بارود برسانا شروع کردیاتاکہ طالبان کو کمزور کیا جاسکے اور جب وہ ہوگئے تو شمالی اتحاد کو ہتھیار فراہم کر کے زمینی کار روائی شروع کردی جس سے شمال میں تمام شہر ایک کے بعد ایک طالبان کے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے۔ سب سے آخر میں تاجکستان کے باڈر پر واقع قندوز رہ گیا جو شمال میں طالبان کا ہیڈ کوارٹر اور مضبوط گڑھ تھا۔ امریکہ ابھی افغانستان کا زمینی کنٹرول حاصل نہیں کر سکا تھا لھذا کابل اور قندھار کے علاوہ کہیں کوئی ریڈار نہ تھے۔ امریکہ دن بھر بمباری کرتا اور رات میں سناٹا چھا جاتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے طور خم باڈر سے کابل تک جتنا فاصلہ ہے اس سے تقریبا تین گنا زیادہ فاصلہ کابل سے قندوز تک ہے اور یہ کہ فضائی فاصلے میں قندوز کابل کی نسبت چترال کے زیادہ قریب ہے۔ طالبان کے تمام اہم ترین کمانڈر قندوز میں تھے اور دوسرے شہروں سے پسپا ہو کر آنے والے طالبان بھی قندوز میں جمع ہورہے تھے جبکہ امریکہ کا الزام ہے کہ آئی ایس آئی کے بھی کچھ اہم لوگ اس شہر میں تھے۔ دوستم نے اعلان کیا تھا کہ اس شہر سے ملنے والے ہر غیر ملکی کو میں عبرت کی مثال بناؤنگا۔ غیب کا علم اللہ کو ہے لیکن سنا ہے نومبر کی ایک ٹھنڈی رات میں چترال اور گلگت ایئر سٹرپس سے پاکستان ایئر فورس کے C130 طیاروں نے پرواز بھری اور سیدھا قندوز ایئر بیس پر اترے، وہاں سے مسافروں کو اٹھایا اور واپس چترال اور گلگت آ کر اترے، یہاں سے ایک بار پھر اڑے اور مزید مسافر لے کر چترال اور گلگت آ کر اترے۔ کہتے ہیں کہ ایک ہزار سے زائد لوگ لائے گئے تھے۔ اب دلچسپ بات یہ ہے کہ کھسیانی بلی کہتی ہے کہ یہ آپریشن ہماری اجازت سے ہوا تھا لیکن ساتھ ہی اسے “Operation Evil Airlift” بھی کہدیتی ہے، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟ اور اگر اس کی اجازت سے ہوا تو دن کی روشنی میں پشاور یا پنڈی سے پروازیں کیوں نہیں ہویں ؟۔ یہ وہ پہلا واقعہ ہے جس نے امریکہ پر یہ واضح کردیا تھا کہ اس نے جسے غاروں کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی ہے وہ اسے افغانستان میں کھلی چھوٹ دینے اور ہر حکم ماننے پر تیار نہیں ہوگا۔ (جاری ہے)