خارجہ پالیسی کی نوعیت
چونکہ پاکستان توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والا ملک نہیں اس لئے اس کی خارجہ پالیسی جارحانہ نہیں بلکہ دفاعی ہے، مثلا اسرائیل کے حوالے سے پاکستان اس اصول پر چل رہا ہے کہ اگر وہ گریٹر اسرائیل بننے کی غرض سے عرب ممالک پر حملہ آور ہوگا تو پاکستان اس کے خلاف ایکشن میں آئے گا ورنہ نہیں۔ ایران کی تمامتر دہشت گردیوں کے باوجود پاکستان اپنی سرزمین پر اس کے عزائم ناکام کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے، ایران میں کوئی جوابی کاروائی نہیں کرتا۔ انڈیا نے کشمیر پر قبضہ کیا جس سے پاکستان اور انڈیا کے مابین دشمنی شروع ہوئی، پاکستان نے اس کی بنیاد نہیں رکھی۔ افغانستان نے پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی صوبہ سرحد پر دعویٰ کردیا اور آزد پختونستان کی تحریک شروع کروائی، اس تنازعے کی بنیاد بھی پاکستان نے نہیں رکھی۔ امریکہ اسرائیل کی محبت میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کھلے عزائم رکھتا ہے ، ان عزائم کے خلاف بھی ہم اپنا دفاع ہی کر رہے ہیں۔ ان چار ممالک کے علاوہ جتنے بھی ممالک ہیں ان سے پاکستان کے دوستانہ تعلقات ہیں۔
خارجہ اور دفاع کی وزارتوں میں کشمکش
پاکستان میں فوج اور سول حکومتوں کے تعلقات کی خرابی کی بنیاد ہمیشہ خارجہ پالیسی بنتی ہے اس لئے اس کے ایک پہلو کو سمجھنا ضروری ہے۔ وزارت دفاع اور وزارت خارجہ رشتے میں سوتیلی بہنیں ہوتی ہیں۔ چونکہ خارجہ امور کا ایک اہم حصہ دفاعی امور سے ہی وابستہ ہوتا ہے اس لئے دنیا بھر میں یہ قاعدہ ہے کہ وزارت خارجہ کے وہ امور جو دفاع سے متعلقہ ہوتے ہیں ان میں فوج کی رائے مد نظر رکھنا لازم ہوتا ہے۔ مثلاََ اگر امریکہ ایک ملک سے جنگ لڑ رہا ہے تو اس کی وزارت خارجہ پینٹاگون کو بائی پاس کرکے اس ملک کے ساتھ جاری تنازعے میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی اور اگر اٹھائیگی تو تنازعہ شروع ہوجائے گا، جیسا کہ ہیلری کلنٹن کے دور میں وزارت خارجہ اور پینٹاگون میں افغانستان کے حوالے سے ٹھن گئی تھی۔ پینٹاگون افغانستان میں مزید فوج چاہتا تھا اور ہیلری اس کی مخالف تھیں۔ نتیجہ یہ کہ افغانستان میں بیٹھا امریکی کمانڈر جنرل میکرسٹل پھٹ پڑا جو امریکہ کے لئے عالمی شرمندگی کا باعث بنا۔ جرنیل کہتے ہیں کہ جنگ ہم لڑ رہے ہیں، گولیاں ہم کھا رہے ہیں اور مر ہم رہے ہیں، یہ وزارت خارجہ کے ٹھنڈے کمروں والے بیوروکریٹ ہوتے کون ہیں ہمارے معاملات میں بولنے والے ؟ اسی طرح ہماری فوج کہتی ہے کہ جو سٹریٹیجک نوعیت کے فیصلے ہیں یہ راتوں رات تبدیل نہیں ہوسکتے بلکہ اس کے پیچھے ایک لمبی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور یہ کم سے کم بھی دس اور زیادہ سے زیادہ بیس برس کے لئے ہوتے ہیں اور یہ فیصلے کسی بڑے ہدف کے حصول کے لئے ہوتے ہیں جس تک پہنچنے کے لئے بڑی قربانیاں دی گئی ہوتی ہیں لھذا ان اہداف کو حاصل کئے بغیر سٹریٹیجک فیصلوں کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ جب میاں صاحب نے بھارت کی خواہشات کی تکمیل کے لئے پیش رفت شروع کی تو فوج کے ساتھ تعلقات میں کھچاؤ آگیا۔ فوج کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ کشمیر اور دیگر اہم تنازعات حل ہوئے بغیر آپ اسے رعایتیں کیسے دے سکتے ہیں ؟ میاں صاحب کو یہی مشورہ دیا گیا ہے کہ تعلقات کی بہتری یکطرفہ نہیں دو طرفہ ہونی چاہئے، اگر آپ بھارت کو کچھ دیتے ہیں تو اس کے بدلے اسی کا ہم وزن کچھ لیں بھی اور یہ کہ آپ تعلقات کی بہتری کے لئے وہی رفتار اختیار کیجئے جو نریندر مودی اختیار کرتا ہے۔ اگر نریندر مودی چالیس کی رفتار سے آرہا ہے تو آپ ستر کی رفتار سے مت جائیں۔ حاصل کلام یہ کہ خارجہ امور میں فوج کی مداخلت حیران کن نہیں بلکہ پوری دنیا میں اسی طرح ہوتا ہے۔
آزاد خارجہ پالیسی
خارجہ پالیسی کی اس سیریز کا یہ آخری حصہ سب سے اہم ہے جو آپ کی دگنی توجہ چاہتا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی مسلسل دباؤ میں رہتی ہے۔ اور یہ دباؤ سب سے زیادہ امریکہ اور اس کے بعد یورپ سے آتا ہے۔ مثلا امریکہ نے کہا کہ افغاستان میں ہمارا ساتھ دو اور ہمیں اڈے دو ورنہ ہم غاروں کے دور میں پہنچا دینگے اور ہمیں بظاہر یوٹرن لینا پڑا۔ اسی طرح آپ آئے روز بے شمار مسائل میں دیکھتے ہونگے کہ امریکہ کی فرمائشیں آرہی ہوتی ہیں جو بظاہر پوری کی جارہی ہوتی ہیں لیکن چور دروازوں سے پھر اپنے مقاصد کے لئے کام بھی پھیلانا پڑ جاتا ہے۔ اس قسم کی خارجہ پالیسی کو “آزاد خارجہ” پالیسی نہیں کہا جاتا۔ ہمارے سیاستدان قوم کو بیوقوف بناتے ہوئے حکومت وقت سے ہمیشہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ خارجہ پالیسی آزاد نہیں، اسے آزاد کیا جائے۔ میں اسے بیوقوف بنانا اس لئے کہہ رہا ہوں کہ خارجہ پالیسی اس ملک کی آزاد ہوتی ہے جس کی معیشت اپنے مضبوط قدموں پر کھڑی ہو۔ یہ کوئی کھڑے کھڑے محض ایک حکم سے آزاد ہونے والی جنس نہیں، بالفاظ دیگر یہ خارجہ پالیسی ہے کوئی قرون اولیٰ کی باندی نہیں کہ آپ نے کہا جا تو آزاد ہے اور وہ آزاد ہوگئی۔
اسے سمجھنے کے لئے بہترین مثال ماسکو ہے۔ ایک وقت تھا جب ماسکو پوری دنیا پر دھاڑتا تھا۔ اس کا وزیر خارجہ کسی ملک میں اترتا تو ساری دنیا کے کان کھڑے ہو جاتے کہ یہ کیوں گیا ہوگا ؟ یہ کیا چاہ رہا ہوگا ؟ اور پھر وہ وقت آیا کہ سوویت یونین ٹوٹا اور اسی ماسکو میں لوگ لائن میں لگ کر ڈبل روٹیاں حاصل کرنے لگے، جس سے وہ وقت آگیاکہ امریکہ سے وزارت خارجہ کا انڈر سیکریٹری ماسکو میں اترتا اور ان سے مطالبات کر کے چلا جاتا اور جاتے جاتے گویا یہ بھی کہہ جاتا “چائے میں پتی کم اور چینی تیز تھی، آئندہ خیال رکھنا”اور حالات اس حد تک چلے گئے کہ ماسکو سے اس کے ایٹمی ہتھیاروں کی تفصیل مانگی جانے لگی اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں کے معائنے کی فرمائشیں شروع ہو گئیں۔ روس نے وہ وقت تحمل سے سر نیچے کر کے گزار لیا اور اس دوران اپنی معیشت واپس کھڑی کر لی۔ جیسے ہی وہ اپنے قدموں پر آیا تو ایک بار پھر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ولادی میر پیوٹن مغرب کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ اسلامی دنیا میں ہم ترکی کو دیکھ سکتے ہیں۔ ترک صدر طیب اردگان نے اسرائیل کو دھمکیاں تب دینی شروع کیں جب ملک کو قرضوں سے نجات دلا کر معیشت کو قدموں پر کھڑا کر لیا۔اگر آپ کی معیشت مضبوط نہ ہو تو پھر خارجہ امور چھوڑیئے آپ کے داخلہ امور بھی بیرونی مداخلت کی زد میں آجاتے ہیں، جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ یورپی یونین کے دباؤ پر سزائے موت پر کئی سال تک پابندی رہی یا جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نصاب تک باہر والوں کی منشاء کے مطابق تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اگر ہم ان تمام ذلتوں سے نکلنا چاہتے ہیں تو اس کا اکلوتا راستہ معاشی ترقی کا راستہ ہے، جب تک معیشت مضبوط نہیں ہوتی ملک بظاہر آزاد نظر آئے گا لیکن درحقیقت آزاد ہوگا نہیں۔
معیشت کی مضبوطی کے لئے آپ کو جذباتیت ترک کرکے ایک باشعور شہری بننا ہوگا، جس دن آپ باشعور ہوگئے سارے سیاستدان اور بیوروکریٹ خود سیدھے ہو جائینگے اور معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے کام شروع کردینگے۔ آپ کو باشعور کتاب بنائیگی۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہمارے نوجوان کتاب کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔ آپ روز پوچھتے ہیں کہ مغرب میں وزیر اعظم کو عام آدمی کے ساتھ لائن میں لگنا پڑتا ہے، ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا ؟ آج مجھے بھی ایک سوال پوچھنے دیجئے۔ مغرب میں نوجوان گھر چھوڑیئے ٹرین، ٹرام اور بس میں مختصر سے سفر کے دوران بھی کتاب کا مطالعہ کرتے نظر آتے ہیں، ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا ؟ (ختم شد)