پاک افغان تعلقات۔ حصہ اول
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یہ بہت ہی نازک اور پیچیدہ ایشو ہے۔ یہ اسقدر تفصیلی ہے کہ کم سے کم بھی چار سے پانچ قسطیں چاہتا ہے لیکن میں پوری کوشش کرونگا کہ اسے دو قسطوں میں سمیٹ لوں۔ اس ایشو کو پانچ نکات کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔
(01) افغانستان صدیوں ایک ایسے آزاد ملک کی حیثیت سے چلا آرہا تھا جس پر انیسویں صدی میں برطانیہ نے قبضے کی سرتوڑ کوششیں کیں لیکن عبرتناک مار کھا کر وہاں سے نکلا۔ البتہ اس کے کچھ علاقے (تقریبا پورا موجودہ خیبر پختون خواہ) برطانیہ کے قبضے میں رہ گیا۔ جسے افغانستان سے ڈیورنڈ لائن کے ذریعے الگ کیا گیا۔
(02) افغانستان کے رشیا کے ساتھ سفارتی تعلقات 1919ء میں قائم ہوئے۔
(03) تقسیم ہند کا مرحلہ آیا تو صوبہ سرحد کے لئے یہ طے کیا گیا کہ وہاں ریفرینڈم کرا لیا جائے عوام پاکستان اور بھارت میں سے جس کے حق میں ووٹ دیدیں یہ اس کا ہو جائے گا۔ 6 جولائی 1947ء کو ریفرینڈم ہوا جس کے نتائج کا 20 جولائی کو اعلان کیا گیا۔ نتیجے کے مطابق 572798 رجسٹرڈ ووٹوں میں سے پاکستان کے حق میں 289244 جبکہ انڈیا کے حق میں صرف 2874 ووٹ آئے یوں 14 اگست 1947ء کو آزادی کے ساتھ ہی صوبہ سرحد پاکستان کے حصے کے طور پر آزاد ہوا۔
(04) 30 ستمبر 1947ء کو پاکستان اقوام متحدہ کا ممبر بنا۔ جب ممبر شپ کے لئے قرار داد پیش ہوئی تو پوری دنیا سے افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی ممبر شپ کے خلاف ووٹ دیا۔
(05) پہلے ہی دن سے افغانستان نے پاکستان سے ساتھ یہ تنازعہ کھڑا کردیا کہ چونکہ ڈیورنڈ لائن معاہدہ برطانیہ کے ساتھ ہوا تھا جس کے تحت صوبہ سرحد کا علاقہ ایک متعین مدت تک برطانیہ کے قبضے میں تسلیم کر لیا گیا تھا لھذا برطانوی انخلاء کے بعد ایک نیا ملک (پاکستان) اس کی سرزمین پر قبضہ نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان کا موقف یہ تھا کہ صوبہ سرحد کی اسی نازک پوزیشن کے سبب ریفرینڈم ہوا جس میں عوام کی اکثریت نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا لھذا یہ علاقے ڈیورنڈ لائن معاہدے کے تحت پاکستان کا حصہ ہیں ہی نہیں بلکہ عوام کی خواہش اور ان کی رائے کے مطابق پاکستان کا حصہ ہیں۔ افغانستان کو چین نہ آیا اور اس نے پاکستان کی پوری پختون بیلٹ میں “آزاد پختونستان” کی تحریک کو ہوا دینی شروع کی جس کے لیڈر پاکستانی پختونوں کی غیرت یہ کہہ کر جگانے کی کوشش کرتے رہے کہ پنجابی تم پر حکومت کرینگے اور تم ان کی غلامی کروگے۔ لیکن جب ایک پختون یعنی جنرل ایوب خان اقتدار میں آگیا تو صوبہ سرحد کے عوام نے ان لیڈروں سے کہنا شروع کردیا کہ بھائی اب تو دو باتیں ہو گئیں ایک یہ کہ ایک پختون پاکستان پر حکومت کر رہا ہے اور دوسری یہ کہ پنجابیوں کو قومیت کی بنیاد پر اس سے کوئی تکلیف نہیں لھذا جب پنجابی کو پختون کے اقتدار سے کوئی تکلیف نہیں تو کل کو جب کوئی پنجابی اقتدار میں آجاتا ہے تو کیا ہمیں اس پر اعتراض ہونا چاہئے ؟ اس “جوابی بیانیے” نے آزاد پختونستان کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھدی۔
ستر کی دہائی میں بالآخر نام نہاد پختون نشنلسٹ بھی پاکستان سے باقاعدہ وابستہ ہونے لگے اور انتخابات میں شریک ہونا شروع ہوئے لیکن “پنجابی” لفظ ان کی زبان پر ایسا چڑھ گیا تھا کہ بہت دیر تک اپنے اثرات دکھاتا رہا اور آج کل بھی کبھی کبھار یہ ان کی زبانوں سے لڑکھ ہی آتا ہے۔ اُدھر افغانستان میں سوویت اثر رسوخ تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے میں تعاون کے نام پر طلباء کو رشین اساتذہ کی مدد سے کمیونسٹ بنایا جا رہا تھا اور اِدھر پاکستان ٹوٹ چکا تھا۔ بھٹو ایک جینئس تھے وہ جانتے تھے توسیع پسندانہ پالیسی والا سوویت یونین ہر ملک پر قبضہ کرنے سے قبل وہی کرتا ہے جو افغانستان میں کر رہا ہے چنانچہ جب کابل اور جلال آباد یونیورسٹیوں میں کمیونزم کے خلاف طلباء اور اساتذہ نے مزاحمت شروع کی تو بھٹو نے ان کے سر پر دست شفقت رکھدیا اور انہیں سمجھایا کہ بہت جلد سوویت یونین اپنی فوج افغانستان میں اتارے گا اور تم سب کو کچل دیگا لھذا واحد آپشن یہ ہے کہ “جہاد” کی تیاری ابھی سے شروع کردو۔ جی ہاں کمیونسٹ روس کے خلاف “جہاد” کا راستہ اسی بھٹو نے دکھایا اور پشاور میں 1975ء میں ٹریننگ بھی اسی بھٹو نے شروع کروائی جس کا ظاہری چہرہ “سوشلسٹ” کا تھا۔ خلاصہ یہ کہ بھٹو پھانسی پر لٹک گئے۔ افغانستان میں سوویت فوجیں داخل ہو گئیں اور جنرل ضیاء کے خلاف بھٹو کےصاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو نے عسکری جدوجہد شروع کردی جس کا ہیڈ کوارٹر وہی کمیونسٹ کابل بن گیا جس کے خلاف خود بھٹو نے جہاد کی بنیاد رکھی تھی۔ سٹریٹیجک فیصلے حکومتیں بدلنے کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتے چنانچہ جس طرح جنرل ضیاء نے بھٹو کی نیوکلیئر پالیسی کو جاری رکھا اسی طرح افغان جہاد والی پالیسی کو بھی نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے لامحدود وسعت بھی دیدی۔
پاکستان کے پختون نیشنلسٹ جو 1970ء کے بعد ٹھنڈے پڑ چکے تھے وہ روسی افواج کے افغانستان میں آتے ہی سرخ ٹوپیاں پہن کر پھر سے سرگرم ہو گئے۔ اجمل خٹک اور افراسیاب خٹک جیسے تو کابل میں مستقل ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئے کہ اب تو سرخ ٹینکوں پر ہی بیٹھ کر پاکستان جائینگے۔ کے جی بی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی خاد نے نہ صرف صوبہ سرحد اور بلوچستان کے نیشنلسٹ پختونوں اور پشتونوں کو منظم کیا بلکہ بلوچوں کو بھی قابو کر لیا، کابل میں ڈیرے جمانے والوں میں نواب خیر بخش مری بھی شامل تھے اور پھر مزید آگے بڑھتے ہوئے سندھ میں بھی جام ساقی جیسوں کے ذریعے ایک خفیہ کمیونسٹ تحریک کی بنیادیں ڈالیں جسے آئی ایس آئی نے بری طرح کچل ڈالا۔ گویا اب یہ طے ہوگیا کہ اگر افغانستان میں رشیا قدم جما گیا تو جلد یہ اجمل خٹک اور نواب خیر بخش مری کی قیادت میں پاکستان آئے گا۔ اگر اس کا قبضہ وہاں مستحکم نہ ہوا لیکن یہ وہاں سے نکلا بھی نہیں تو پاکستان کے صوبہ سرحد اور بلوچستان کو یہ نیشنلسٹوں کی مدد سے مسلسل گرم رکھتے ہوئے انہیں علیحدگی تک لے کر جائے گا۔ صورتحال اسقدر نازک ہو چکی تھی کہ نہ صرف سرخ رشین انقلاب پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا تھا بلکہ پورے بلوچستان باڈر پر کھڑا ایرانی انقلاب بھی تیزی سے پاکستان میں سرایت حاصل کرنے کی کوششوں میں تھا جبکہ ہمارے مشرقی باڈر پر وہ بھارت اسرائیل کو اشارے کر رہا تھا جو صرف آٹھ سال قبل پاکستان کو دو لخت کر چکا تھا گویا لے دے کر ہمارا صرف چائنا باڈر مکمل محفوظ تھا باقی ہم ہر جانب سے تباہ کن صورتحال سے دوچار تھے۔ تن پر پھٹی جینز، جیب میں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا یا دبئی کا ویزہ اور ایک ہاتھ میں برگر دوسرے میں میں پیپسی لے کرپاکستان کی افغان پالیسی کو گالی دینا بہت آسان کام ہے لیکن اگر دل میں انصاف کی معمولی سی بھی رمق باقی ہے تو 1979ء والے پاکستان میں کھڑے ہو کر ایک نظر اپنے چاروں طرف کے مناظر پر ڈال کر دیکھئے آپ کے ہوش ٹھکانے نہ آگئے تو لاشوں کو گالی دینے کی ضرورت نہیں گلزار قائد آ کر میرا ہی گریبان پھاڑ دیجئے کہ دفاع وطن کی اس جنگ کا ایک ادنیٰ سا مجرم میں بھی ہوں۔ (جاری ہے)