سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
السلام علیکم و رحمۃ الله و بركاته!
واشنگ مشین میں سفید کے بعد رنگین کپڑے گهمائے.
پهر اسکو اسپن کر کےنل کے نیچے دو دو بار الگ الگ نچوڑ کر ٹوکری مین ڈالا.پهر آخری بار اسپنر میں پائپ لگا کر ایک ایک اٹهاتی گئی اور پانی کی دهار کے نیچے ڈالتی گئی۔اچهے سے اسپن کردیا
مسئلہ یہ ہوا کہ استری کرتے وقت ایک دو کپڑوں میں جن ناپاکی کا داغ دکهائی دیا۔ (کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ تازہ داغ دهو کر میلے کپڑوں میں ڈالوں لیکن)
*اب جس کپڑے میں داغ نظر آیا صرف وہ پاک کروں؟
*یا اس کے ساتھ جو کپڑے تهے سب پاک کروں؟
*اگر کوئی کپڑا یاد آنے سے رہ جائے تو؟
*اگر سب پاک کرنے ہیں.. تو ان کپڑوں میں جو نمازیں پڑهی انکا کیا حکم ہے۔
نمازوں کے وقت کپڑوں پہ ظاہرا” ناپاکی نہیں تهی۔
رہنمائی کر دیجئیے نہایت مشکور ہوں گی۔
تنفیح:دھونے کے بعد آپ کو صرف داغ نظر آیا تھا یا نجاست لگی ہوئی نظر آئی تھی
جواب تنقیح: محض داغ تو نہیں تها.. نجاست ہی تهی..مشین میں مسئلہ ہو رہا ہے۔ دو الگ الگ شلواروں میں ہتھیلی کے گہرائی سے زیادہ ہلکا ہلکا لکوریا لگا باقی تها۔
الجواب باسم ملہم الصواب
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے یہاں دو سوال پوچھے ہیں۔
1-نجس کپڑوں کو پاک کپڑوں کے ساتھ دھویا تو اُس کا کیا حکم ہے؟
2-نجس کپڑوں میں جو نمازیں پڑھیں تو کیا اُن کو دہرانا ہو گا؟
دونوں سوالوں کے جواب بالترتیب ملاحظہ ہوں۔
1.جب بھی کپڑے دھوئے جائیں تو اس بات کا اہتمام ہوکہ پہلے نجاست دور کردی جائے اور پھر ناپاک کپڑوں کو پاک کپڑوں کے ساتھ ملا کر دھویا جائے۔تاکہ کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہ رہے۔
بہر حال مذکورہ صورت میں چونکہ آپ نے ہر جوڑے پر تین بار پانی بہایا ہے،لہذا اگر پانی بہانے کے بعد غالب گمان ہو گیا تھا کہ کپڑے پاک ہو گئے ہیں تو اس صورت میں کپڑے پاک سمجھے جائیں گے۔
البتہ جن کپڑوں پر نجاست لگی ہوئی رہ گئ ہے،اب صرف وہی کپڑے ناپاک سمجھے جائیں گے اورصرف اُن ہی کپڑوں کو پاک کرنا کافی ہے۔
2.نجاست اگر درہم (5.94 سینٹی میٹر )سے زیادہ ہو تو ان کپڑوں میں جو نمازیں پڑھی گئی ہیں وہ دوبارہ پڑھنی ہوں گی۔اگر ایک درہم یا اس سے کم ہے تو پھر نماز یں دہرانے کی ضرورت نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 161)
“و” يطهر محل النجاسة “غير المرئية بغسلها ثلاثاً” وجوباً، وسبعاً مع الترتيب ندباً في نجاسة الكلب خروجاً من الخلاف، “والعصر كل مرة” تقديراً لغلبة.
یعني اشتراط الغسل والعصر ثلاثاً إنما هو إذا غمسه في إجانة، أما إذا غمسه في ماء جار حتى جرى عليه الماء أو صب عليه ماءً كثيراً بحيث يخرج ما أصابه من الماء ويخلفه غيره ثلاثاً فقد طهر مطلقاً بلا اشتراط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار، والمعتبر فيه غلبة الظن، هو الصحيح، كما في السراج، ولا فرق في ذلك بين بساط وغيره، وقولهم يوضع البساط في الماء الجاري ليلةً إنما هو لقطع الوسوسة”۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 331)
” (و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفاً وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد، به يفتى. (وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصر ثلاثاً) أو سبعاً (فيما ينعصر) مبالغاً بحيث لا يقطر۔ ۔ ۔ وهذا كله إذا غسل في إجانة، أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار……..
فقط
واللہ اعلم باالصواب
19 محرم 1442 ھ
28اگست 2021 ء