فتویٰ نمبر:419
صورت مسئلہ ہم سب سات بہن بھائی ہیں ( تین بھائی اور چار بہنیں ہیں ) والد محترم نے اپنی زندگی میں پانچ پلاٹ اپنے تینوں بیٹوں میں مالکانہ حقوق کے ساتھ دے دیے تھے اور ایک پلاٹ ہم تین بہنوں میں تقسیم کردیاتھا جس میں ہماری ایک بہن اپنے شوہر کے ساتھ رہائش پذیر ہے ۔ والد محترم کی ملکیت میں تقریبا آٹھ تولہ سونا بھی تھا جو کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایک بیٹی کو بطور قرض وصیت کی تھی کہ یہ سونا ایک بیٹی کو دو تولہ اور باقیوں کو ایک ایک تولہ سونا دینا ہے اس وصیت پر ہم سب کا اتفاق ہے ۔
والد محترم کےا نتقال کے بعد ہماری ایک بہن نے کہا کہ ابو نے انتقال والے دن وصیت کی تھی کہ یہ سارا سونا مجھے دیاجائے ۔
حل طلب :
1۔ایک پلاٹ جو والد محترم نے ہم تینوں بہنوں میں تقسیم کیاتھا اسٰں میں خریدنے اور بیچنے کے حوالے سے ہم کس حد تک خود مختار ہیں ؟
2۔ہمارے بھائی ہم سے وہ پلاٹ اپنی مرضی کی قیمت سے خریدنا چاہتے ہیں۔ کیا ہم بیچنے پر مجبور ہیں ؟
3۔ والد محترم نے اپنی زندگی میں اس وقت کی مارکیٹ کے حساب سے وصیت کی تھی کہ یہ پلاٹ اپنی بہنوں سے اٹھارہ لاکھ میں لینا جبکہ ابھی اس پلاٹ کی مارکیٹ زیادہ ہے ،کیا ہم پھر بھی اٹھارہ لاکھ میں بیچنے پر مجبور ہیں یا والد محترم کی وصیت کی تھی کہ یہ پلاٹ اپنی بہنوں سے اٹھارہ لاکھ میں لینا جبکہ اس پلاٹ کی مارکیٹ زیادہ ہے ،کیا ہم پھر بھی اٹھارہ لاکھ بیچنے پر مجبور ہیں یا والد محترم کی وصیت بطور شفقت تھی کہ بیٹیوں کو نقصان نہ ہو؟
4۔ہماری ایک بہن کا سونے والے معاملے میں یہ کہنا کہ ابو نے انتقال والے دن فلاں وصیت کی تھی کیا اس وصیت کا اعتبار ہوگا ؟
جواب :
1۔ جن تینوں بہنوں میں یہ پلاٹ والد مرحوم نے اپنی زندگی میں تقسیم کیاتھا، یہ پلاٹ انہیں کی ملکیت ہے۔ تینوں بہنوں کا اس میں برابر حصہ ہے ۔تینوں کی رضامندی سے ہی اس کو بیچا جاسکتا ہے۔ تین بہنوں میں سے کوئی بہن پورا پلاٹ خریدنا چاہے تو دو بہنوں کو ان کے حصوں کی قیمت دے کر ان کی رضامندی سے خرید سکتی ہے ۔
2۔ آپ اس معاملے میں خود مختار ہیں۔ بیچنے پر مجبور نہیں ۔
3۔ والد مرحوم کی اس وصیت پر عمل شرعا ضروری نہیں۔ زیادہ قیمت پر بھی پلاٹ بیچا جاسکتا ہے ۔
4۔اگر والد مرحوم نے واقعی ایسی کوئی وصیت کی ہے تو ورثاء کے اتفاق کے بغیر اس کا کوئی اعتبار نہیں ،
واضح رہے کہ زندگی میں جائیداد کی تقسیم شرعا ہبہ اور ہبہ گفٹ کہلاتی ہے اور اس میں والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام اولاد میں برابر جائیداد تقسیم کریں، بغیر کسی شرعی وجہ کے کسی اولاد کو زیادہ دینا اور اس کے مقابلے میں دوسری اولاد کو کم دینا یا بالکل نہ دینا گناہ ہے۔ اگر چہ جس کو دیا ہے وہ اس کا مالک بن جاتا ہے ۔
صورت مسئولہ میں والد کا اپنی ایک بیٹی کو پلاٹوں میں سے بالکل نہ دینا، اسی طرح لڑکوں کے مقابلے میں تین لڑکیوں کو کم دینا اگر بغیر کسی شرعی وجہ کے ہے تو یہ گناہ ہوا ہے ۔اس پر ان کے لیے توبہ واستغفار اور ایصال ثواب کرنا چاہئے !
فی الاشباہ: ” لا اضرار علی الورثۃ بعدد موتہ۔ “
0الاشباہ والنظائر :288، قدیمی )
وفی فتح القدیر : “ان الوصیۃ للوارث لا تجوز الا باجازۃ الورثۃ ۔ “
( فتح القدیر ، کتاب الوصایا :9/341، طبع رشیدیہ)