نکاح نامہ میں طلاق پرجرمانہ

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:200

محترم بزرگان دین مفتی صاحب کراچی دارالعلوم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بندہ کی شادی تین سال قبل ہوئی ۔ کچھ عرصہ کراچی میں ہم لوگ رہے لیکن اب میری بیوی اپنے والدین کے ہاں ٹہری ہوئی ہے اور وہ لوگ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ میں ان کے گاؤں میں جا کر رہوں وہیں پر مکان خریدوں یا بناؤں اور اگر میں ایسا نہیں کر سکتا تو پھر اس کو طلاق دے دوں جبکہ میں نہ طلاق دینا چاہتا ہوں اور نہ ہی ان کے گاؤں میں قیام کر نا چاہتا ہوں کیونکہ یہ میرے لیے مشکل ہے اور شادی سے پہلے ایسی کوئی شرط نہیں تھی کہ میں ان کے گاؤں میں مکان لے کر دوں گا البتہ ایک مکان میں نے اپنے گاؤں میں بطور مہر کے اس کے نام پر کردیا تھا اور پانچ تولے سونا بھی مہر بنایا گیا تھا جو عورت کے حوالے کیا گیا تھا اب وہ سونا ہمارے گھر میں ہے اور بلاوجہ طلاق دینے کی صورت میں پچاس ہزار روپے جرمانہ کی شرط بھی نکاح نامہ میں لکھی ہوئی ہے اور ناچاکی کی صورت میں ایک ہزار روپے ادا کرنا بھی نکاح نامہ ساتھ منسلک ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ

1:  عورت کا اپنے گاؤں میں گھر میں لے کر دینے کا مطالبہ کرنا درست ہے ؟

2:  عورت کا اس طرح بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا کیسا ہے؟

3:  اب اگر میں ان کے اس طرح مطالبے پر طلاق دے دوں تو   کیا پچاس ہزار کی ادائیگی مجھ پر لازم ہوگی ؟

4:  جو سونا اور مکان مہر بنایا گیا ہے وہ دونوں مجھے عورت کو واپس کرنا پڑیں گی؟

5:  ناچاکی کی صورت ایک ہزار روپے کی ادائیگی کا کیا حکم ہے؟

نوٹ:  نکاح نامہ میں تو یہ بات اسی طرح لکھی ہوئی ہے مگر ہماری مراد یہ تھی کہ شوہر ہر مہینہ اس کی ادائیگی کرے گا

اس میں شرعی حکم کیا ہے؟

6:  اگرمیں گھر نہ دے سکوں جیسا کہ میرے لیے مشکل ہے اور پھر میں اس کو طلاق بھی نہ دوں بلکہ اسی طرح لٹکائے رکھوں تو کیا میں گناہ گار ہوں گا؟

7:  ایسی صورت میں کیا میں دوسری شادی کر سکتا ہوں ؟

فارم نمبر 2

مسلم خاندانی قوانین کے آرڈی متس مجریہ 1961 (ہشتم 1961) کے تحت وضع کئے ہوئے قواعد کے قاعدہ نمبر 8 اور نمبر 10 کے تحت مجوزہ

فارم

نکاح نامہ

وارڈ کا نام انجرا   ٹاؤن / یونین کونسل مکھئدتحصیل/تھانہ فنڈ اور ضلع اٹک جس میں شادی وقوع پذیر ہوئی انجرا آراس

2: دولہا اور اس کے والد کا انم معہ ان کی حاکم خان ولد فیض بخش قوم اعوان ماکن خوشحال گڑھ تحصیل سکونت بالترتیب تلہ گنگ ضلع چکوال

3: دولہا کی عمر -/28سال

4: دلہن اور اس کے والد کا نام رابعہ بیگم دختر نور محمد خرم اعوان ماکن انجرارسکونت بالترتیب تحصیل جنار ضلع زنگ

5: آیا دلہن کنواری ہے یا بیوہ یا مطلقہ کنواری

6: دلہن کی عمر -/19 سال

7:  اگر دلہن کی طرف سے کوئی وکیل مقرر کیا گیا ہے تو اس کا نام معہ ولدیت و سکونت 1: دین محمد ولد میاں محمد ماکن انجراف تحصیل منڈ ضلع اٹک     8:  دلہن کے وکیل کے تقرر کے بارے میں گواہوں کے نام معہ ولدیت وسکونت اور ان کی دلہن کے ساتھ رشتہ داری                        

1:  سید رحمن ولد میں محمد ماکن انجرار تحصیل منڈ ضلع اٹک

2:   خدا بخش ولد اسد یار ساکن تراپ ضلع اٹک  

9:  اگر دلہا کی طرف سے کوئی وکیل مقرر کیا گیا ہے تو اس کا نام معہ ولدیت و سکونت ہاشم خان ولد فیض بخش ماکن خوشحال گڑھ ضلع اٹک

10:  دولہا کے وکیل کے تقرر کے بارے میں گواہوں کے نام معہ ولدیت و سکونت

11:  سید ارشد ولد غلام حسین ساکن خوشحال گڑھ ضلع چکوال

2:  حاجی سید بخش ولد امیر بخش ساکن نکہ کحوط ضلع اٹک

11:  شادی کے گواہوں کے نام معہ ولدیت و سکونت

1:  محبوب خان ولد صوبہ خان ماکن تراپ ضلع اٹک

2:  شیرازخان ولد سید رحمن ماکن تراپ ضلع اٹک

12:  شادی سرانجام پانے کی تاریخ 2009 – 6 – 5

13:  مہر کی رقم 5 تولہ سونا خالص حق مہر میں دیا گیا ہے

14:  مہر کی کتنی رقم معجل ہے اور کتنی غیر معجل سب ادا کیا گیا ہے

15:  آیا مہر کا کچھ حصہ شادی کے موقعہ پر ادا کیا گیا اگر کیا گیا ہے تو کس قدر /

16:  آیا پورا مہر یا اس کے کسی حصہ کے عوض میں کوئی جائیداد دینی ہے اگر دی گئی ہے تو اس جائیداد کی صراحت اور اس کی قیمت جو فریقین کے مابین مل پائی ہے ایک مکان دلہن منکوحہ کو دیا گیا ہے جو دلہن کی ملکیت ہے

17:  خاص شرائط اگر کوئی ہوں /

18:  آیا شوہر نے طلاق کا حق بیوی کو تفویض کر دیا ہے اگر کر دیا ہےتو کونسی شرائط کے تحت /

19:  آیا شوہر کے طلاق کت حق پر کسی قسم کی پابندی لگائی گئی ہےطلاق کی صورت میں خاوند 50ہزار روپے ادا کرے گا

20:  آیا شادی کےفوٹوز ،مہرو نان و نفقہ وغیرہ سے متعلق کوئی دستاویز تیار کی گئی ہیں اگر کی گئی ہیں تو اس کے مختلف مندرجات

ناچاکی کی صورت میں مبلغ 1000روپے خاوند ادا کرے گا

21:  آیا دولہا کے یہاں پہلے سے کوئی بیوی ہے اگر ہے تو آیا اس نے دوسری شادی کرنے کے لیے مسلم قو انین کے آرڈینینس کے تحت ثالثی کونسل سے اجازت حاصل کرلی ہے/

22:  نیزتاریخ مراہمں کے ذریعے ثالثی کونسل نے دولہا کو دوسری شادی کرنے کی اجازت دی ہے

23:  نکاح خوان کا نام اور ولدیت کا پتہ قریشی عبد الخالق چغلیب جامع مسجد انجرارضلع اٹک

24:  شادی کو درج رجسٹر کرانے کی تاریخ 2008 – 6 – 5

25:  فیس رجسٹریشن جو ادا کی گئی

الجواب حامداً و مصلیاً

1:  شوہر پر بیوی کے لیے رہائش کا معقول انتظام کرنا شرعاً لازم ہے یعنی ایسی رہائش فراہم کرنا جس میں دوسروں کا دخل نہ ہو اور پڑوس کے افراد سے بیوی کی عزت اور اس کے سازوسامان خطرے میں نہ ہوں لہذا مذکورہ صورت میں آپ نے اگر مذکورہ شرائط کے مطابق بیوی کے لیے رہائش کا انتظام کر رکھا ہے تو ایسی صورت میں بیوی کا اپنے گاؤں میں مکان بنوانے کا مطالبہ کرنادرست نہیں اور اگر آپ نے مذکورہ شرائط کے مطابق رہائش کا انتظام نہیں کیا تھا مثلاً مکان میں دوسروں کا دخل ہے یا پڑوس کے افراد سے بیوی کو اپنی عزت یا سازوسامان پر اطمینان نہیں ہے تو ایسی صورت میں بیوی کا دوسری جگہ رہائش کا مطالبہ کرنا درست ہے البتہ اس کے گاؤں میں مکا ن بنا کر دینا آپ کے اوپر لازم نہیں بلکہ مذکورہ شرائط کے ساتھ اپنی سہولت کے مطابق آپ جہاں قیام پذیر ہیں وہاں مکان بنا کر دے دینا  کافی ہے کیونکہ شوہر کو حق ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رکھے اور جس جگہ ہو رہائش رکھنا چاہتاہے وہاں اگر بیوی کے لیے کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے تو بیوی کا اس کے ساتھ رہنا لازم ہے

فی فتاوی قاضی علی ھامش الھندیۃ 1/ 428

اما الکنی تحقھا فی بیت علی حدۃ تامن علی متاعھا و لا تستحی عن غیرھا من معاشرۃ الزوج الی – ان قال: فان کانت داراً فیھا بیوت و اعطی لھا بیتاً تغلق و تفتح لم یکن لما ان تطلب بیتاً آخر الخ  

و فی رداالمحتار 3/ 147

فیفتی بما عندہ من المضارۃ و عدمھا ولان المفتی انما یفتی بکسب ما یقع عندہ من المصلحۃ اھ فقولہ فیفتی الخ صریح فی انہ لم بجزم بقول الفقیہ و لا بقول القاضی و انما جزم بتفویض ذلک الی المفتی المسؤل عن الحادثۃ و انہ لا ینبغی طرد الافتاء بواحد من القولین علی الاطلاق الخ و فی فتح القدیں 3/ 147: (قولہ و اذا او تاما مھرھا) او کان مؤجلاً۔

(فقلھا الی حیث غاہ) من بلاد اللہ و کذا اذا وطئھا برضا ما عندھا الخ۔

و فی رداالمحتار 3/ 602

(قولہ و مفادہ الخ) عبارۃ البحر ھکذا قالوا للزوج ان یسکنھا حیث

احب و لکن بین جیران صالحین الخ

2:  اگر آپ نے مذکورہ تفصیل کے مطابق بیوی کے لیے رہائش فراہم کودی ہے اس کے باوجود بیوی اس پر راضی نہیں ہے اور اپنا مذکورہ مطالبہ آپ کے پورا نہ کر سکنے کی وجہ سے طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے اس کے علاوہ کوئی اور شرعی عذر نہیں ہےتو ایسی صورت میں بیوی کا طلاق کا مطلبہ کرنا درست نہیں کیونکہ حدیث شریف میں اس طرح بغیر کسی شدید مجبوری کے طلاق کا مطا لبہ کرنے کے متعلق وعید آئی ہے

و فی ،شکوۃ المصابیح ص 283

عن ثوبانرضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہﷺ: ایما امراۃ سات زوجھا طلاقاً فی غیرھا باس فحرام علیھا رائحۃ الجنۃ

رواہ احمد و الترمذی و ابو داود و ابن ماجۃ و الدارمی

و فی المرقاۃ 2/420

( فی غیر ما باس) و فی روایۃ من غیر ما باس ای لغیر مدۃ تلجھا الی سؤال المفارقۃ الخ۔

3: اگر  شوہر بلاوجہ طلاق دے گا تو نکاح نامہ میں مذکور شرط کے مطابق شوہر پر50000روپے کی ادائیگی لازم ہوگی۔

فی مشکوۃ المصابیح ص253

و عن عمر بن عوف المزنی عن النبیﷺ قال الصلح بین المسلمین الا صلحا حرم حلالاً او احل حراماً والمسلمون علی شرو طھم الا شرطاً حلالاً او احل حراماً۔ رواہ الترمذی و ابن ماجۃ و ابو داود۔ الخ

4:  بیوی کا جو حق مہر آپ کے پاس موجود ہے وہ بیوی کا حق ہے اسے واپس کرنا بہرحال ضروری ہے اسی طرح مہر میں مقرر کیا ہوا مکا ن اگر آپ نے اب تک حوالے نہیں کیا تھا تو اسے بھی بیوی کے حوالے کرنا ضروری ہے تاہم اگر آپ بیوی کے حق مہر کے عوض بیوی سے خلع کرنا چاہتے ہیں تو خلع کر سکتے ہیں اس طرح کہ آپ اپنی بیوی سے کہیں کہ میں 5تولہ سونا اور مہر کے مکان کے عوض آپ سے خلع کرتا ہوں اگر بیوی اس پر راضی ہو جائے اور اسے قبول کر لے تو بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی اور ایسی صورت میں مذکورہ چیزیں واپس کرنا آپ کے اوپر لازم نہیں ہوگا۔

5:  اگرناچاکی بیوی کی طرف سے ہوئی تھی اس طرح کہ آپ کی بیوی کے لیے اوپر کردہ شرائط کے مطابق رہائش کا معقول انتظام کرنے کے باوجود وہ میکے چلے گئی تھی اور آپ کی طرف سے کوئی زیادتی نہیں ہوئی تھی تو بیوی نا فرمان ہے لہذا ایسی صورت میں نکاح نامہ میں مذکور شرائط کے مطابق ماہوار 1000کی ادائیگی آپ کے اوپر لازم نہیں اور اگر آپ کی طرف سے کوئی زیادتی ہوئی تھی یا مذکورہ شرائط کے مطابق رہائش کا معقول انتظام آپ نے نہیں کیا تھا اس وجہ سے وہ چلی گئی تھی تو ایسی صورت میں نکاح نامہ میں مذکور شرط کے مطابق ماہوار 1000روپے کی ادائیگی آپ کے اوپر لازم ہوگی۔

فی الدر المختار 3/585

و لو فرض لما کل یوم او کل شھر حل یکون قضاء ما دام النکاح؟ قلت: نعم الا المانع – حتی لو شرط فی العقد ان النفقۃ تکون من غیر تقدیر و الکسوۃ الشتاء و الصیف لم یلزم۔ الخ۔ و فی الشامیۃ قولہ “الا المانع” کنشوزھا فتسقط فی مدۃ کما مر – و فیہ انہا تلزم

بالتراضی علی قدر معلوم و نصیر بہ دینا فی ذمۃ الزوج۔ الخ۔

6: اگر آپ نے اوپر ذکر کردہ شرائط کے مطابق رہائش کا معقول انتظام کر رکھا ہے تو بیوی کے گاؤں میں مکان بنا کر دینا آپ کے اوپر لازم نہیں اور ایسی صورت میں اگر آپ طلاق نہ دیں تو آپ گناہ گار نہیں ہوں گے بشرطیکہ طلاق نہ دینے کا مقصد بیوی کے حقوق ادا کرتے ہوئے خوشگوار زندگی گزارنی ہو تو بیوی  کو نقصان پہنچانا نہ ہو۔

فی التفسیر المظہری 1/306

و الاولی ان یفسر قولہ او تسریح باحسان یبینھا مطلقاً اما بطلاق ثلاث او بانقضاء العدۃ و المعنی فالواجب ان یمسکہا بمعروف او یبینہا باحسان سواء طلق ثالثاً اولاً و الفرض منہ تحریم الامساک بالاضرار بغیر معروف۔ الخ۔

6:  مذکورہ صورت میں آپ شرعاً دوسرا نکاح کر سکتے ہیں ۔و اللہ اعلم

محمد الیاس مرگوئی عفی عنہ

دارالافتاء دارالعلوم کراچی

21/6/1427ھ

پی ڈی ایف میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/783666205335960/

اپنا تبصرہ بھیجیں