سوال:میں نے اپنے بیٹے کی جب شادی کی تو شادی کی شرائط میں ایک شرط ڈیڑھ تولہ سونا دینے کی تھی یہ سارا سوناہم نے گفٹ کے طور پر دینا ہم نے منظور کر لیا تھا،لیکن ہم صرف ایک تولہ سونا دے سکے تھے،بقیہ آدھا تولہ ہم نے ادھار کر رکھا تھا کہ بعد میں دیں گے،اب ہوا یہ کہ لڑکی سسرال میں نباہ نہ کر سکی اور ناگزیر وجوہات کی بنا پر میرے بیٹے نے اسے طلاق دے دی۔
اب مسئلہ آدھا تولہ سونا کا ہے کہ اس کی ادائیگی شرعاً ہمارے ذمہ لازم ہے یا نہیں؟
فتویٰ نمبر:194
الجواب حامداً ومصلیاً
مہر کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ کرنا مزاج شریعت کے خلاف ہے،صورت مسئولہ میں جو گفٹ کی شرط لگائی گئی تھی تو جو گفٹ دےد یا وہ تو عورت کی ملکیت ہو گیا،بقیہ آدھا تولہ سونا دینا شرعاً لازم نہیں ہے۔
جیساکہ فتاوی رحیمیہ میں ہے:
نکاح کے موقع پر لڑکی یا لڑکے والے کی طرف سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا اور اس کا لین دین کرنا رشوت ہےاوررشوت شریعت میں حرام ہے(ج۸ص۲۳۳)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 156):
(أخذ أهل المرأة شيئا عند التسليم فللزوج أن يسترده) لأنه رشوة.
(قوله عند التسليم) أي بأن أبى أن يسلمها أخوها أو نحوه حتى يأخذ شيئا، وكذا لو أبى أن يزوجها فللزوج الاسترداد قائما أو هالكا لأنه رشوة بزازية.
فتح القدير للكمال ابن الهمام (9 / 19):
وتصح بالإيجاب والقبول والقبض) أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد، والعقد ينعقد بالإيجاب، والقبول، والقبض لا بد منه لثبوت الملك.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 688):
وشرائط صحتها في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول