نکاح کے10 مقاصدوفوائد:
1۔۔۔نکاح کا ایک بڑا مقصد پرہیزگاری اور دل کی پاکیزگی ہے۔اس کے ذریعے انسان بدنظری، زنا، بدکاری اور شیطانی تخیلات سے بچارہتا ہے۔
2۔۔۔نکاح بذاتِ خود اطاعت اور عبادت ہے، اور نفل عبادت سے افضل ہے۔چنانچہ ایک روایت میں نکاح کو نصف عبادت اور ایک دوسری روایت میں نصف ایمان کہا گیاہے۔(مجمع الزوائد ومشکوۃ)
3۔۔۔انسان کی فطرت میں اللہ تعالی نے محبت اور دوستی کا عنصر ودیعت کردیا ہے۔بیوی اس محبت کا بہترین محل ہے۔
4۔۔۔مرد حضرات کام کاج کی وجہ سے عموما گھروں میں نہیں رہ سکتے ۔جبکہ عورتیں ہر وقت گھروں میں ہوتی ہیں اس لیے وہ مردوں کے مال واسباب اور بچوں کی بہترین محافظ ہے۔
5۔۔۔نکاح انسان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرتا ہے ۔ بیوی بچوں کی فکر اسے سستی ، کاہلی ،فراغت اور بے کاری سے دور رکھتی ہے۔اسے لڑائی جھگڑے اور نافرمانی سے بھی باز رکھتی ہے۔یوں معاشرے اور ملک وقوم کو مستعد اور فرماں بردار افرادی قوت مہیاہوتی ہے۔یہ مصلحت کئی مصالح کو شامل ہے۔
6۔۔۔فطری طور پر مرد وعورت کے اندر جنسی خواہشات رکھی گئی ہیں، اس فطری جذبے کو پورا کرنے کا حلال راستہ یہی نکاح ہے۔ اگر نکاح نہ ہو تو ناجائز طریقے سے یہ تقاضا پورا کرنے کی طرف میلان ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے حرام سے بچنے کے لیے یہ حلال راستہ رکھا ہے۔
7۔۔۔اولاد کا طلب کرنا بھی نکاح کے مقاصد میں سے ہے، کیونکہ نسل انسانی کی بقا اسی سے ممکن ہے۔ اس مقصد کے حصول پر حدیث میں بڑی تاکید آئی ہے کہ ایسی عورتوں سے نکاح کرو جو زیادہ بچے جننے والی ہوں۔
8۔۔۔امت محمدیہ کے افراد کا زیادہ ہونا بھی ایک اہم مقصد ہے، جس کی حضور ﷺنے تمنا فرمائی، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: میں تمہاری کثرت پر قیامت کے دن فخر کروں گا۔اسی طرح قومی طاقت اور توانائی کا دارومدار کثرتِ آبادی اور ان کی مادی اوراندرونی قوت پر منحصر ہے۔
9۔۔۔نکاح کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ وہ سکون وآرام اور راحت کا ذریعہ ہے، جیسا کہ پہلے گزرا۔
10۔۔۔نکاح کئی بیماریوں اور امراض سے بچاؤ کا بھی ذریعہ ہے۔نکاح نہ کرنے والے مادہ منویہ روکنے کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، کیونکہ انسان کا یہ مادہ جب کافی عرصہ تک بند رہتا ہے تو اس کا زہریلا اثردماغ تک چڑھ جاتا ہے، اور بسا اوقات اُنہیں مالیخولیا کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔
نیویارک مینٹل ہاسپٹل کے میڈیکل انچارج ڈاکٹر ہاولبرگ کہتے ہیں:
“مینٹل ہاسپٹل میں عام طور پر مریض اس تناسب سے داخل ہوتے ہیں کہ ان میں ایک شادی شدہ ہوتا ہے تو چار غیر شادی شدہ ہوتے ہیں۔”(تحفۃ العروس)
برٹلن کے ترتیب دیے ہوئے اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے :
” شادی شدہ جوڑوں کی نسبت غیر شادی شدہ کہیں زیادہ خودکشی کے مرتکب ہوتے ہیں، جبکہ اکثر شادی شدہ افراد کی دماغی اور اخلاقی حالت نہایت متوازن اور ٹھوس ہوتی ہے، ان کی زندگی میں ٹھہراؤ ہوتا ہے۔ اور جیسا کجرو اور سوداوی مزاج بہت سارے بن بیاہے نوجوانوں کا ہوتا ہے، شادی شدہ جوڑوں میں اُس طرح نہیں پایا جاتا۔ نیز یہ بھی مشاہدہ ہے کہ شادی شدہ خواتین ہر چند کہ بچہ جننے، ماں بننے اور خانہ داری اور ازدواجی زندگی، غرض زندگی کے بے شمار مسائیل میں گھری ہوتی ہیں، پھر بھی دوسری غیر شادی شدہ عورتوں کے مقابلہ میں ان کی عمریں خاصی طویل ہوتی ہیں اور وہ ان کے مقابلہ میں زیادہ مطمئین اور خوش ہوتی ہیں۔”