فتویٰ نمبر:4088
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
ایک شخص نے منت مانی کسی کام کی ۔ کہ فلاں کام ہوگیا تو حج کریں گے ۔ لیکن وہ کام ہونے سے پہلے نیت بدل دی کہ حج کرنا ممکن ہو یا نہیں تو منت کی نیت یہ کرلی کہ اگر کام ہوگیا تو عمرہ کریں گے۔ اب وہ کام ہوگیا ہے۔ تو کیا واجب ہے ؟ حج یا عمرہ ؟
والسلام
الجواب حامدا و مصليا
جو عبادت مقصودہ زبان سے منت مان کر خود پہ لازم کر لی جائے اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔حج عبادت مقصورہ میں سے ہے اس لیے اگر زبان سے منت مانی تھی تو یہ منت ہو گئی اب اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ لیکن اگر صرف نیت تھی، زبان سے کچھ نہیں کہا تھا تو منت نہیں ہوئی۔ زبان سے نذر ماننے سے ہی منعقد ہوتی ہے۔
“يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا”
” جو نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے ” {الإنسان:7}
” ثم ليقضوا تفثهم وليوفوا نذورهم “۔
{الحج : 29}
ترجمہ: پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں۔
” والنذر فی معنی الطلاق والعتاق لأنہ لا یحتمل الفسخ بعد وقوعہ۔”
{بحر الرائق:۲/۲۷۶}
” وفی البدائع: ومن شروطہ أن یکون قربة مقصودة فلا یصح النذر بعیادة المریض، وتشییع الجنازة، والوضوء والاغتسال و دخول المسجد ومس المصحف والاذان”۔
{ الدرّ مع الردّ المختار:۵/ ۵۱۶}
” النذر لا تکفی فی إیجابہ النیۃ بل لابد من التلفظ بہ”۔
{ الأشباہ والنظائر: ۸۹}
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ: ۱۴ربیع الثانی١٤٤٠ھ
عیسوی تاریخ:۲۱ ، دسمبر ۲۰۱۸
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: