فتویٰ نمبر:509
سوال:ہمارے یہاں اکثر شادی بیاہ کے موقع پر اور عید وغیرہ کے موقع پر نئے نوٹ لئے جاتے ہیں جس کا حساب یہ ہے کہ اگر دس روپے کے نوٹ کی گڈی لیتے ہیں تو اس کے اندر نوٹ تو ایک ہزار کے ہوتے ہیں لیکن وہ ایک ہزار سے تیس یا چالیس روپے اوپر لیتے ہیں تو اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے کیا یہ چیز سود کے اندر شامل ہے یا نہیں اگر ہے تو کیا لینے دینے والے دونوں پر یا صرف لینے والے پر کیونکہ دینے والا تو مجبور ہے ۔ مندرجہ بالا سوال کا جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں ۔
الجواب حامدا ومصلیا
صورتِ مسؤلہ میں نوٹوں کی نئی گڈی کے بدلہ مزید ۳۰/۴۰ روپے لینا دینا سود ہے (۱)جو کہ شرعا ً نا جائز اور گناہ ہے حدیث شریف میں اس پر سخت وعیدات آئی ہیں ۔(۲)
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دِرْهَمُ رِبًا يَأْكُلُهُ الرَّجُلُ وَهُوَ يَعْلَمُ أَشَدُّ مِنْ سِتَّةٍ وَثَلَاثِينَ زِنْيَةً»
(مشكاة المصابيح 2 / 859)
ترجمہ : سود کا ایک درہم جانتے بوجھتے کھا لینا ۳۶مرتبہ زنا کرنے سے بدتر ہے ۔
حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں یہ زیادتی بھی ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَزَادَ: وَقَالَ: «مَنْ نَبَتَ لَحْمُهُ مِنَ السُّحت فَالنَّار أولى بِهِ» (مشكاة المصابيح 2 / 859)
ترجمہ : یعنی جس کی نشو نما حرام سے ہوئی وہ دوزخ کی آگ کے زیادہ لائق ہے۔
نیز یہ واضح رہے کہ نوٹوں کا تبادلہ نوٹوں کے ساتھ “بیع صرف “ہے اور اس میں ضروری ہے کہ دونوں طرف برابر سرابر رقم ہو نئے نوٹ ہونا یہ ایک صفت ہے اس صفت کے عوض رقم کا زیادہ لینا دینا سود ہے اور لینے والا اور دینے والا دونوں گناہگار ہیں نہ تو یہاں کوئی مجبور ہے اور نہ ہی شریعت نے ایسی مجبوری کا اعتبار کیا ہے ۔(۳)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 257):
بَابُ الصَّرْفِ (هُوَ) (بَيْعُ الثَّمَنِ بِالثَّمَنِ) أَيْ مَا خُلِقَ لِلثَّمَنِيَّةِ وَمِنْهُ الْمَصُوغُ (جِنْسًا بِجِنْسٍ أَوْ بِغَيْرِ جِنْسٍ) كَذَهَبٍ بِفِضَّةٍ (وَيُشْتَرَطُ) عَدَمُ التَّأْجِيلِ وَالْخِيَارِ وَ (التَّمَاثُلُ) أَيْ التَّسَاوِي وَزْنًا…….(إنْ اتَّحَدَا جِنْسًا وَإِنْ) وَصْلِيَّةٌ (اخْتَلَفَا جَوْدَةً وَصِيَاغَةً)
فقط