نام رکھنے کی شرعی حیثیت

فتویٰ نمبر:3089

سوال: مجھے یہ پوچھنا ہے کہ

1) نام رکھنے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

2) اور کوئ بھی نام انسان کی شخصیت پرکس حد تک اثرانداز ہوتاہے؟

3) کیا صحابہ یا صحابیات کے نام رکھنے میں معنی بھی دیکھنا ضروری ہے؟ 

4) بعض لوگ بچے کا نام رکھنے سے پہلے اسکے یوم پیدائش اور تاریخ پیدائش کے حساب سے کوئ حرف نکلواتے ہیں اور پہر اسی حرف سے نام رکھنے کو بھت اہمیت دیتے ہیں۔ تو کیا اسطرح کرنا شرعا صحیح ہے؟ 

5) اور بچے کا اچھا نام جیسے کہ کسی صحابی کا نام ہی رکھنے کے بعد یہ کہنا کہ اس کو یہ نام سوٹ نہیں کیا لہذا اسکانام بدل دینا چاھئیے۔ کیا اسطرح کہنا اور نام بدلنا صحیح ہے؟

سائلہ کا نام: ام فروۃ

پتا: كراچی

الجواب حامدا و مصليا

1) شريعت نے اچھے نام رکھنے کی ترغیب دی ہے اور برے نام رکھنے سے روکا ہے اور اچھے نام کو بچے کے حقوق میں شمار کیا ہے. انسان جس نام سے دنیا میں جانا پہچانا جاتا ہے آخرت میں اس کی شناخت اسی نام سے ہوگی؛یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اچھے نام کو باپ کی طرف سے بچے کے لیے تحفہ قرار دیا ہے۔ لہذا اچھے ناموں کا انتخاب اور برے ناموں سے احتراز کرنا چاہیے ۔

حدیث مبارکہ میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

“آدمی اپنے بچے کو سب سے پہلا تحفہ نام کا دیتا ہے،اس ليے چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے۔”

(الجامع الکبیر للسیوطی: ۷۹۸۹)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

“باپ پر بچہ کے حقوق میں سے یہ ہے کہ اس کا عمدہ نام رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے۔”

(مسندبزار:۸۵۴۰)

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

“قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباء کے ناموں کے سا تھ پکارے جاؤ گے۔ لہذا تم اچھے نام رکھا کرو ۔”

(ابوداؤد: ۲/۶۷۶)

2) اچھے ناموں کے اچھے اثرات اور برے ناموں کے برے اثرات کا مرتب ہونا احادیث وآثار سے ثابت ہے :

حضرت عبد الحمید ابن جبیر کہتے کہ (ایک دن ) میں حضرت سعید بن المسیب کی خدمت میں حاضر تھا کہ انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ میرے دادا جن کا نام حزن تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا میرا نام حزن(جس کے معنٰی ہیں سخت اور دشوار گزار زمین) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (حزن کوئی اچھا نام نہیں ہے ) بلکہ میں تمہارا نام سہل ( اس کے معنی ہیں ملائم اور ہموار زمین، جہاں آدمی کو آرام ملے) رکھتا ہوں ۔ میرے دادا نے کہا کہ میرے باپ نے میرا جو نام رکھا ہے اب میں اس کو بدل نہیں سکتا ۔حضرت سعید ؓ نے فرمایا : اس کے بعد سے ہمارے خاندان میں ہمیشہ سختی رہی۔

( ابوداؤد :۲ /۶۷۷، مصنف عبد الرزاق :۱۱/۴۱ ،السنن الکبرٰی :۹/۵۱۶ بخاری: ۲/۹۱۴ )

” تحفۃ الالمعی” میں یے:

’’ جیسا نام ہوگا ویسا مسمٰی ہوگا ،عاقل نام ہوگا اور اس کو بار بار اس نام سے پکارا جائے گا تو اس میں عقل مندی پیدا ہوگی اور اگر بدّھو نام رکھا جائے گا اور اس کو بار بار اس نام سے پکارا جائے گا، تو وہ ناسمجھ بن جائے گا ‘‘۔

( تحفۃ الالمعی: ۶/ ۵۸۷ )

اس سے یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ اچھے ناموں کے اچھے اور برے ناموں کے برے اثرات ہوتے ہیں، البتہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ناموں میں یہ اثر اللہ تعالی نے رکھا ہے اور یہ نام بذات خود نفع پہنچاسکتے ہیں نہ نقصان، لہذا انہیں مؤثر بالذات سمجھنا درست نہیں ۔

3) جہاں تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ناموں کاتعلق ہے تو وہ تمام کے تمام نام اچھے ہیں ان کے نام رکھنے میں معانی ومطالب کو نہیں دیکھا جائے گا کیوں کہ آپ ﷺ کی عادت شریفہ تھی صحابہ کے ناموں میں کوئی نام نامناسب معلوم ہوتا تو آپ ﷺ اسے تبدیل فرمادیتے ۔

4) علم الاعداد اور تاریخ پیدائش کے حساب سے حرف نکالنا اور اسی حرف سے نام رکھنا اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، بلکہ اس سے اعتقاد کی خرابی کا اندیشہ ہے لہذا اس سے بچنا چاہیے ۔

5) اسی طرح اچھے نام خاص کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ نام سوٹ نہیں کرتا اس لیے اسے بدل دینا چاہیے سو معلوم ہونا چاہیے کہ جو نام غلط اور خلاف شرع ہوں ان کو تو ہرحال میں بدلنا چاہیے اور جو نام شرعی اعتبار سے ٹھیک ہیں،ان کو بدلنا ثابت نہیں، لیکن بدلنے میں حرج بھی نہیں ۔

چناںچہ فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود الحسن صاحب رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں :

’’جو نام خلاف شرع ہو اس کا بدلنا حدیث شریف سے ثابت ہے ، شریعت کے موافق جو نام ہو اس کو جسمانی امراض کے علاج کے لیے بدلنا ثابت نہیں ۔فقط واللہ اعلم‘‘۔ 

( فتاوی محمودیہ :۱۹ /۳۹۰ )

“ِانَّ مِنْ حَقِّ الْوَلَدِ عَلَی الوَالِد ِأَنْ یُحْسِنَ اِسْمَہ‘ وَیُحْسِنَ أَدَبَہ‘”۔ 

(مسندبزار:۸۵۴۰)

ا”ِنَّکُمْ ُتدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأَسْمَائِکُمْ وَاَسْمَائِ آبَائِکُمْ فَأَحْسِنُوْا أَسْمَائَکُمْ۔”

(ابوداؤد: ۲/۶۷۶،السنن الکبری للبیہقی: ۹/۵۱۵،سنن دارمی: ۲۷۵۰، صحیح ابن حبان:۵۸۱۸،مسنداحمد:۲۱۷۳۹،مسندعبدابن حمید:۲۱۳)

“أَوَّلُ مَا یَنْحَلُ الْرَجُلُ وَلَدَہٗ اِسْمُہ‘ فَلْیُحْسِنْ اِسْمَہ‘۔”

(جامع الاحادیث:۹۶۴۹؍الجامع الکبیر للسیوطی: ۷۹۸۹)

“اِنَّ النبی صلی اللہ علیہ و سلم کَا نَ یُغَیِِّرُالِاسْمَ القَبیْحَ۔ “

(ترمذی :۲/۱۱۱ ) 

” ومن تأمل معاني السنة وجد معاني الأسماء مرتبطة بمسمياتها حتى كأن معانيها مأخوذة منها وكأن الأسماء مشتقة منها ألا ترى إلى خبر أسلم سالمها الله وغفار غفر الله لها وعصية عصت الله ومما يدل على تأثير الأسماء في مسمياتها خبر البخاري عن ابن المسيب عن أبيه عن جده أتيت النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: ما اسمك قلت: حزين قال: أنت سهل قلت: لا أغير اسما سماني به أبي. قال ابن المسيب: فما زالت تلك الحزونة فينا بعد والحزونة الغيظة قال ابن جني: مر بي دهر وأنا أسمى الاسم لا أدري معناه إلا من لفظه ثم أكشفه فإذا هو كذلك قال ابن تيمية: وأنا يقع لي كثيرا.”

(فيض القدير : 1 / 237)

🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸

✍بقلم : 

قمری تاریخ: 23 جمادى الاولي 1440ھ

عیسوی تاریخ: 29جنوري 2019ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں