نماز ميں غالب گمان ایک سمت ہو تو سجدہ سہو کاحکم

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
السلام علیکم و رحمۃ الله و بركاته!
نماز کی رکعتوں میں شک کی صورت میں غالب گمان کسی ایک سمت میں جاتا ہو تو پھر تو آخر میں کیا سجدہ سہو کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

الجواب باسم ملہم الصواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

واضح رہے اگر ظن غالب ایک طرف ہے تو پھر اسی کے مطابق عمل ہوگا اور آخر میں سجدہ سہو کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔لیکن سوچنے میں تین دفعہ سبحان ربی العظیم کہنے کا وقت نہ گزرا ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات

1-و ان كان يعرض له كثيرا بنى على اكبر رايه لقوله عليه السلام من شك فى صلاته فليتحر الصواب،
(کتاب الھدایہ :سجدہ سہو کے احکام)

2-وإذا شك) في صلاته (من لم يكن ذلك) أي الشك (عادة له) وقيل من لم يشك في صلاة قط بعد بلوغه وعليه أكثر المشايخ بحر عن الخلاصة (كم صلى استأنف) بعمل مناف وبالسلام قاعدا أولى لأنه المحل (وإن كثر) شكه (عمل بغالب ظنه إن كان) له ظن للحرج (وإلا أخذ بالأقل) لتيقنه (وقعد في كل موضع توهمه موضع قعوده) ولو واجبا لئلا يصير تاركا فرض القعود أو واجبه (و) اعلم أنه (إذا شغله ذلك) الشك فتفكر (قدر أداء ركن ولم يشتغل حالة الشك بقراءة ولا تسبيح) ذكره في الذخيرة (وجب عليه سجود السهو في) جميع (صور الشك) سواء عمل بالتحري أو بنى على الأقل.
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 92)

3-وإن كثر الشك” تحرى و “عمل” أي أخذ “‌بغالب ‌ظنه لقوله صلى الله عليه وسلم “إذا شك أحدكم فليتحر الصواب فليتم عليه».”
(‌‌«مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح» (ص183):فصل في الشك، ‌‌باب سجود السهو،
4-اگر نماز میں شک ہو گیا ہےکہ تین رکعتیں پڑھی یا چار تو اگر یہ شک اتفاق سے ہو گیا ہےایسا شبہ پڑھنے کی عادت نہیں ہے تو پھر سے نماز پڑھےاور اگر شک کرنے کی عادت ہے اور اکثر ایسا شبہ پڑ جاتاہے تو دل میں شوچ کر دیکھے کہ دل زیادہ کدھر جاتا ہے اگر زیادہ گمان تین رکعت پڑھنے کا ہے تو ایک اور پڑھ لے اور سجدہ سہو واجب نہیں ہے۔
(بہشتی زیور :سجدہ سہو کا بیان:136)

فقط
واللہ اعلم بالصواب
28رجب 1444ھ
19 فرورى 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں