سوال : حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے فضائل اعمال میں یہ روایت ذکر کی ہے : صاحب احیاء نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کیا ہے کہ : جس شخص نے نماز میں کھڑے ہوکر کلام پاک پڑھا اس کو ہرحرف پر سونیکیاں ملیں گی ، اور جس شخص نے نماز میں بیٹھ کر پڑھا ، اس کے لئے پچاس نیکیاں ، اور جس نے بغیر نماز کے وضوء کے ساتھ پڑھا اس کے لئے پچیس نیکیاں ، اور بلا وضوء دس نیکیاں … الخ
اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے ۔
الجواب : یہ حدیث چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روایت سے منقول ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
۱۔۔ رواية علي بن أبي طالب رضي الله عنه :
من قرأ حرفًا من كتابِ اللهِ عزَّ وجلَّ في صلاتِه قائمًا كتب اللهُ له بذلك الحرفِ مئةَ حسنةٍ إذا كان إنَّما قام للهِ به، ومن قرأ حرفًا من كتابِ اللهِ في صلاتِه قاعدًا كُتِب له بكلِّ حرفٍ خمسين حسنةً، ومن قرأ شيئًا من القرآنِ يحتسِبُ بذلك الأجرَ في غيرِ صلاةٍ لم يقرَأْ حرفًا إلَّا كُتِب له به حسنةٌ ، واللهُ واسعٌ كريمٌ إنَّما يقولُ للشَّيءِ كُنْ فيكونُ .
ترجمہ :
جس شخص نے نماز میں کھڑے ہوکر کلام پاک پڑھا اس کو ہرحرف پر سونیکیاں ملیں گی اگر اس نے صرف اللہ کے لئے پڑھا ہو، اور جس شخص نے نماز میں بیٹھ کر پڑھا اس کے لئے پچاس نیکیاں،اور جو نماز کے خارج ثواب کی امید پر تلاوت کرے تو اس کے لئے ہر حرف پر ایک نیکی لکھی جائے گی ….
تخریجہا :
أخرجها ابن عدي في “الكامل”(6/228) وقال : حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ علي بن بيان، حَدَّثَنا الحسن بن زياد الكوفي، حَدَّثَنا عَمْرو بْنُ شِمْرٍ ، عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ، عَن أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمد بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ غَالِبٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَال: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … فذكره وقال : وَهَذَا غَيْرُ مَحْفُوظٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ وَلَعَلَّهُ أَيضًا غَيْرُ مَحْفُوظٍ عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ وَعَنْ عَمْرو بْنِ شِمْرٍ ،لأَنَّ شَيْخَنَا جَعْفَرَ بْنَ أَحْمَدَ كُنَّا نَتَّهِمُهُ بِوَضْعِ أَحَادِيثَ يَرْوِيهَا.
اس روایت کی تخریج ابن عدی نے (الکامل ) میں کی ہے اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا : یہ روایت اس اسناد سے محفوظ نہیں ہے ، اور شاید جابر جعفی اور عمرو بن شمر سے بھی محفوظ نہیں ہے(یعنی ان دونوں نے بھی اس کی روایت نہیں کی ہے)، اس لئے کہ ہمارے شیخ جعفر بن احمد پر ہم وضع حدیث کی تہمت لگاتے تھے ۔
تو اس روایت کو ابن عدی نے غیر محفوظ قرار دیا ہے ، بلکہ جعفر بن احمد کے متہم ہونے کی بناء پر موضوع ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔
۲۔۔ رواية البراء بن عازب رضي الله عنه :
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ بِشْرٍ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، ثنا أَبُو دَاوُدَ ، ثنا شُعْبَةُ ، ثنا طَلْحَةُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْسَجَةَ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : ” زَيِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ ۔۔۔ إلى أن قال : وَمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ قَائِمًا ، فَلَهُ بِكُلِّ حَرْفٍ مِائَةُ حَسَنَةٍ ، وَمَنْ قَرَأَهُ فِي الصَّلاةِ قَاعِدًا ، فَلَهُ بِكُلِّ حَرْفٍ خَمْسُونَ حَسَنَةً ، وَمَنْ قَرَأَ فِي غَيْرِ صَلاةٍ فَلَهُ بِكُلِّ حَرْفٍ عَشَرُ حَسَنَاتٍ .
ترجمہ :
یہ ایک طویل حدیث ہے جس کا آغاز اس طرح ہے : اپنی خوش نما آواز سے قرآن کریم کو آراستہ کرو ، آگے پھر وہی درج بالا مضمون ارشاد فرمایا : جس شخص نے نماز میں کھڑے ہوکر کلام پاک پڑھا اس کو ہرحرف پر سونیکیاں ملیں گی ، اور جس شخص نے نماز میں بیٹھ کر پڑھا اس کے لئے پچاس نیکیاں، اور نماز کے خارج میں پڑھنے پر ہر حرف پر دس نیکیاں ملیں گی ۔
تخریجہا :
أخرجها تمام الرازي في [ فوائده رقم الحديث: 289 ] .
وقال بعض الباحثين : في إسناده ثلاثة ضعفاء :
محمد بن يحيى وهو التمار: قال الدارقطني: ” ليس بالمرضي”. وقال الذهبي في “الميزان” 4/ 65: “أتى بخبر منكر”.
وأحمد بن بشر بن حبيب بن زيد أبو عبد الله الصوري: مجهول الحال، ذكره ابن عساكر في “تاريخ دمشق” 71/ 42، وقال: “قدم دمشق وحدث بها عن جماعة، وحدث عنه جماعة”.
وشيخ تمام: مجهول الحال أيضا، ذكره ابن عساكر في “تاريخ دمشق” 6/ 262، وسكت عنه.
تمام رازی نے (الفوائد ) میں روایت کی تخریج کی ہے ، ایک باحث نے سند پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس میں تین راوی مجروح ہیں :
۱۔ محمد بن یحیی تمار کے متعلق دارقطنی نے کہا کہ :وہ معتمد نہیں ہے ، اور ذہبی نے میزان میں لکھا ہے کہ : اس نے ایک منکر روایت نقل کی ہے ۔
۲۔ احمد بن بشر بن حبيب بن زيد ابو عبد الله صوری، مجهول الحال ہے ، ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں اس کا دمشق میں ورود اور روایت کرنا لکھا ہے ، لیکن اس کا حال بیان نہیں کیا ۔
۳۔ اسی طرح تمام کے شیخ بھی مجہول الحال ہیں ، ان پر بھی ابن عساکر نے سکوت اختیار کیا ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ: ایک راوی کے ضعیف ہونے اور دو کی جہالت الحال کی بناء پر یہ روایت مستند نہیں ہے ۔نیزبراء بن عازب کی یہ روایت اکثر کتب حدیث میں مختصر وارد ہے (زَيِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ)باقی باتیں یاتو من گھڑت ہیں ، یا دوسری ضعیف روایات سے ماخوذ ہیں ۔
۳۔۔ رواية ابن عباس رضي الله عنهما :
من استمع حرفًا من كتابِ اللهِ أو قرَأه نظرًا كتب اللهُ له حسنةً ومُحِيَتْ عنه سيِّئةٌ ورُفِعت له درجةٌ، ومن قرأ حرفًا من كتابِ اللهِ ظاهِرًا كُتب له عشرُ حسناتٍ ومُحِيَتْ عنه عشرُ سيِّئاتٍ ورُفع له عشرَ درجاتٍ، ومن قرأ حرفًا من كتابِ اللهِ في صلاةٍ قاعدًا كُتب له خمسون حسنةً ومُحِيَتْ عنه خمسون سيِّئةً ورُفع له خمسون درجةً،ومن قرأحرفًامن كتابِ اللهِ في صلاةٍ قائمًا كُتب له مئةُ حسنةٍ ومُحِيَتْ عنه مئةُ سيِّئةٍ ورُفع له مئةُ درجةٍ .
ومن قرأ خَتمةً كُتب له عند اللهِ دعوةٌ مستجابةٌ معجَّلةٌ أو مؤخَّرةٌ، فقال له رجلٌ: يا أبا عبَّاسٍ إن كان رجلٌ لم يتعلَّم إلَّا سورةً أو سورتَيْن؟ قال: سأل رجلٌ رسولَ اللهِ ﷺ فقال: ختَمه من حيث علِمه ختَمه من حيث علِمه .
ترجمہ :
اس روایت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی صورت میں ایک آیت کی تلاوت پر سو نیکی سو گناہ معاف ہونے اور سو درجے بلند ہونے کی بات کہی گئی ہے، اسی طرح بیٹھ کر پڑھنے کی صورت میں پچاس نیکیاں ملنے, پچاس گناہ معاف ہونے اور پچاس درجات بلند ہونے کا ذکر ہے ۔
تنبیہ : اس روایت میں(ومن قرأ حرفًا من كتابِ اللهِ ظاهِرًا)جوہے ، یہ لفظ(ظاهِرًا)ہے، بظاء معجمہ ، یعنی منھ پر پڑھنا ، جو (نظرًا)کے مقابلہ میں ہے ، طہارت اور پاکی مراد نہیں ہے۔والدلیل :
2302 – “فضل قراءة القرآن نظرا على من يقرأه ظاهرا كفضل الفريضة على النافلة”. (أبو عبيد في فضائله عن بعض الصحابة) .کنز
2305 – “قراءتك نظرا تضاعف على قراءتك ظاهرا كفضل المكتوبة على النافلة”. (ابن مردويه عن عمرو بن أوس) .کنز
اسی طرح سوال میں مذکور روایت میں (وضوء بلا وضوء ) کی جو بات ہے ،اس کی اصل روایات میں نہیں ہے ۔ہاں استماع الی القرآن پاکی کی حالت میں بعض روایات میں مذکور ہے ۔
تخریجہا :
أخرجها ابن عدي في (الكامل في الضعفاء ٣/٢٨٤ ) قال : حَدَّثَنَا ابن أَبِي عصمة، وَمُحمد بْنُ عَبد الْحَمِيدِ الْفَرْغَانِيُّ، وَمُحمد بن علي بن إسماعيل قالوا : حَدَّثَنا عَلِيُّ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنا حفص بن عُمَر بن حكيم ، حَدَّثَنا عَمْرُو بْنُ قَيْسٍ الْمُلَائِيُّ ، عن عَطَاءٍ ، عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَال: قَال النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ … فذكره .
قال ابن عدي : حفص بن عُمَر الحكيم يقال : لقبه الكبر ، حدَّث عن عَمْرو بن قيس الملائي ، عن عطاء ، عنِ ابن عباس أحاديثَ بواطيل.
وأخرجه البيهقي في «شعب الإيمان» (٢٠٨٥) وقال : تَفَرَّدَ بِهِ حَفْصُ بْنُ عُمَرَ وَهُوَ مَجْهُولٌ “
ابن عدی فرماتے ہیں کہ : حفص (عمرو بن قیس عن عطاء عن ابن عباس) کی سند سے اباطیل(بے بنیاد احادیث) روایت کرتا ہے ، مذکورہ بالا روایت بھی اسی سند سے ہے ، نیز ابن عدی نے اسے حفص کی منکرات میں شمار کیا ہے ۔اور بیہقی کہتے ہیں کہ : اس روایت کو عطا سے نقل کر نے میں حفص بن عمر متفرد ہیں ۔
4۔۔ رواية أنس بن مالك رضي الله عنه :
2427 – من قرأ القرآن في صلاة قائما كان له بكل حرف مئة حسنة ، ومن قرأه قاعدا كان له بكل حرف خمسون حسنة ، ومن قرأه في غير صلاة كان له بكل حرف عشر حسنات ، ومن استمع إلى كتاب الله كان له بكل حرف حسنة. الديلمي عن أنس. (كنز العمال)
یہ روایت کنز العمال میں دیلمی کے حوالہ سے منقول ہے ، مگر اس کی سند کا حال معلوم نہ ہوسکا ۔
خلاصہ یہ ہے کہ: درج بالا چاروں روایات بیحدضعیف ہیں، بلکہ ان میں بعض پر تو من گھڑت ہونے کا حکم لگایا گیا ہے ، جہاں تک صحیح روایات کی بات ہے تو ان میں مطلقا تلاوتِ کلام پاک پر دس نیکیوں کا ملنا مشہور ومعروف ہے ، اگرچہ اوقاتِ فاضلہ اور حالات کے اختلاف کی بناء پر اجر وثواب میں اضافہ ہونا ممکن ومعقول ہے ، وفضل اللہ واسع ۔ لیکن اس طرح کی تفصیلات حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں ۔اس لئے اس طرح کی روایات بیان کرنے میں اوران کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنے میں احتیاط کرنی چاھئیے ، اور بعض مصنفین کا تسامح وتساہل دلیل نہیں بن سکتا ذکر کرنے کے لئے ۔
جمعہ ورتبہ المفتی : رشید الدین معروفی ، حفظہ اللہ
راجعہ ونظر فیہ : محمد طلحہ بلال احمد منیار