نیک صفات اور ان کے حصول کے طریقے:دوسری قسط
اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کا طریقہ
اللہ تعالیٰ کی طرف دل کا کھنچنا اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کو سن کر اور ان کے کاموں کو دیکھ کر دل کو مزہ آنا، یہ محبت ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کا کثرت سے ورد کرے، اس کی صفات ِکمال کو یاد کیا کرے اور اللہ تعالیٰ کو جو بندے کے ساتھ محبت ہے، اس میں غور کرے۔
اللہ تعالیٰ کے حکم پر راضی رہنا اور اس کا طریقہ
جب مسلمان کو یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس میں بندے کا فائدہ اور خیر ہے توپھر ہربات پر راضی رہنا چاہیے اور کسی قسم کا شکوہ شکایت نہیں کرنا چاہیے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس بات کا دھیان رہے کہ اللہ تعالیٰ کا جو بھی فیصلہ ہوتا ہے، اس میں خیرہوتی ہے۔
صدق یعنی سچی نیت اور اس کا طریقہ
کوئی شخص دین کا کوئی کام کرے تو اس میں دنیا کا کوئی مفاد نہ ہو، نہ دکھلاوا ہواور نہ کوئی اور مطلب ہو، جیسے کسی کے پیٹ میں گرانی ہے، اس نے اس نیت سے روزہ رکھ لیا کہ ثواب بھی ملے گا اور پیٹ بھی ہلکا ہو جائے گا یا نماز کے وقت پہلے سے وضو ہو، مگر گرمی کی وجہ سے وضودوبارہ کر لے کہ وضو بھی تازہ ہو جائے گا اور ہاتھ پاؤں بھی ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ یا کسی سائل کو اس لیے دے دیاکہ اس کے سوال سے جان چھوٹے اور صدقہ بھی ہو جائے۔یہ سب باتیں سچی نیت کے خلاف ہیں۔
صدقِ نیت کا طریقہ یہ ہے کہ کام کرنے سے پہلے خوب سوچ لیا کرے کہ نیت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے علاوہ کسی اور چیز کا شائبہ ہو تو دل کو اس سے صاف کر لے۔
مراقبہ یعنی دل سے اللہ تعالیٰ کا دھیان رکھنا اور اس کا طریقہ
دل میں ہر وقت یہ دھیان رکھے کہ اللہ تعالیٰ کو میرے تمام ظاہری اور باطنی حالات کی خبر ہے، اگر کوئی برا کام ہو گا یا برا خیال لایا جائے گا تو اندیشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیاو آخرت میں سزا دیں گے۔ عبادت کے وقت یہ خیال رکھے کہ اللہ تعالیٰ میری عبادت کو دیکھ رہا ہے، اس لیے اچھی طرح ادا کرنا چاہیے۔ یہ سوچنے سے تھوڑے دنوں میں اس کا دھیان جم جائے گا،پھر ان شاء اللہ تعالیٰ اس سے کوئی بات اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف نہیں ہوگی۔
قرآنِ کریم کی تلاوت میں دل لگانے کا طریقہ
قاعدہ ہے کہ اگر کوئی کسی سے کہے کہ ہمیں تھوڑا سا قرآن سناؤ، تاکہ ہم دیکھیں کہ کیسا پڑھتے ہو تو اس وقت جہاں تک ہو سکتا ہے پڑھنے والا خوب بنا سنوار کراور سنبھال کر پڑھے گا، لہٰذا جب قرآن مجید کی تلاوت کا ارادہ ہو تو دل میں یہ سوچ لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے قرآن مجید سنانے کی فرمائش کی ہے اور یہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ سن رہے ہیں، نیز یہ خیال کرو کہ کسی آدمی کے کہنے سے میں بنا سنوا ر کر پڑھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فرمانے سے تو خوب اہتمام کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ یہ سب باتیں سوچ کر پڑھنا شروع کرےاور جب تک پڑھتا رہے، یہی باتیں ذہن میں رکھے اور جب پڑھنے میں بگاڑ ہونے لگے یا توجہ ادھر ادھر بٹنے لگے تو تھوڑی دیر کے لیے پڑھنا روک کر ان باتوں کے سوچنے کو پھر تازہ کیا جائے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس طریقے سے صحیح اور صاف پڑھا جائے گا اور دل بھی ادھر متوجہ رہے گا۔اگر کچھ مدت تک اسی طرح پڑھتے رہے تو پھر آسانی سے دل لگنے لگے گا۔
نماز میں دل لگانے کا طریقہ
نماز کا کوئی عمل (قیام، قرا ء ت،رکوع،سجود اور تسبیحات وغیرہ) بے توجہی سے ادا نہ ہو، بلکہ ہر عمل دھیان اور توجہ سے اداہو، مثلاً: تکبیرِ تحریمہ کہتے وقت یہ دھیان رکھے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا اس کی عبادت کر رہا ہوں، پھر ثنا پڑھتے وقت یہ سوچے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کر رہا ہوں۔ اسی طرح قراء ت، تسبیحات اور دیگر ارکان میں سے ہر ایک کو اس طرح ادا کرے کہ گویا میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں ،اور اگر یہ کیفیت حاصل نہیں ہے تو کم از کم اس یقین کے ساتھ ادا کرے کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں ۔ اس دھیان اور توجہ سے چند دن جب نماز پڑھے گا تو اس کے بعد اس کی توجہ نماز میں نہیں بٹے گی اور نماز میں سرور آئے گا۔
اپنے نفس اور دوسروں کے شر سے بچنے کا طریقہ
انسان کے اعمال میں میں دو چیزیں خرابی پیدا کرتی ہیں۔ ایک تو نفس ہے کہ ہر وقت طرح طرح کی باتیں سمجھاتا ہے، نیک کاموں میں بہانے نکالتا ہے اور برے کاموں میں اپنی ضرورتیں یاد دلاتا ہے۔ عذاب سے ڈراؤ تو اللہ تعالیٰ کا غفورورحیم ہونا یاد دلاتا ہے، اوپر سے شیطان اس کو سہارادیتا ہے۔
اور دوسرا فساد ڈالنے والے وہ آدمی ہیں،جو اس سے کسی طرح کا تعلق رکھتے ہیں، یا تو عزیز و اقارب ہیں یا جان پہچان والے ہیں یا برادری کنبے والے ہیں۔
کچھ گناہ تو اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے سے ان کی بری باتوں کا اثر اس میں آجاتا ہے اور بعض گناہ ان کی خاطر داری کی وجہ سے ہوتے ہیں اور بعض اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کی نگاہ میں ہلکا پن نہ ہو اور بعض گناہ اس لیے ہو جاتے ہیں کہ لوگ اس کے ساتھ برائی کرتے ہیں، کچھ وقت اس برائی کے رنج میں، کچھ وقت ان کی غیبت میں اور کچھ وقت ان سے بدلہ لینے کی فکر میں خرچ ہوتا ہے اور پھر اس سے طرح طرح کے گناہ پیدا ہوجاتے ہیں۔غرض ساری خرابی اس نفس کی تابعداری کی وجہ سے ہے، اس لیے اس کی خرابی سے بچنے کے لیے دو باتیں ضروری ہیں:
1- اپنے نفس کو دبانااور اس کو بہلا پھسلا کر، کبھی ڈانٹ ڈپٹ کر کےدین کی راہ پر لگانا۔
2- لوگوں سے زیادہ لگاؤ نہ رکھنا، اور اس بات کی پرواہ نہ کرنا کہ وہ اچھا کہیں گے یا برا کہیں گے۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)