ہماری زندگی میں ایجادات کا سلسلہ جاری ہے روزانہ بیسیوں چیزیں ایسی دیکھنے میں آتی ہیں جنھیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہےزندگی کے مختلف شعبہ جات میں ٹیکنالوجی نہایت اہم کردار ادا کررہی ہے۔ جدید دور کے انٹرنیٹ نے برقی پیغامات یعنی ای میل اور چیٹ کے ذریعے پیغام رسانی کو آسان بنادیا ہے اور اس طرح انسانوں کے درمیان دوریاں ختم ہوگئی ہیں۔
یہ بات تو ہم جانتے ہی ہیں کہ کوئی بھی چیز بنفسہ یا بالذات اچھی یا بری نہیں ہوتی اس کا استعمال اچھا یا برا ہوتا ہے۔ موبائل فون کا بھی یہی معاملہ ہے۔ موبائل فون فون کے ساتھ ساتھ ٹی وی کمپیوٹر انٹرنیٹ ریڈیو وائرلیس فون پیجر ٹارچ گھڑی الارم کیلکولیٹر ٹیپ ریکارڈر اسٹل کیمرا مووی کیمرا واک مین اور نہ جانے کیا کیا سہولیات فراہم کرتا ہے۔
دوسری طرف اسی موبائل فون سے عریانی، فحاشی اور دیگر بے پناہ معاشرتی مسائل اور الجھنیں بھی جنم لے رہی ہیں۔ یہ حقیقت ہے جو عالمی ماہرین کی تحقیق میں ثابت ہوچکی کہ اگر ایک طرف موبائل فون اور سیلولر سروسز نے ہمارے لیے آسانیاں پیدا کردیں ہیں تو دوسری جانب اس نے خطرناک ترین مسائل بھی کھڑے کردیے ہیں۔
سائنس دانوں نے امریکی قانون سازوں کو موبائل فون کے استعمال سے پیدا ہونے والے خطرات سے آگاہ کیا ہے۔ یونی ورسٹی آف ایلبنی اور یونی ورسٹی پٹسبرگ کے کیسز کے شعبے کے سربراہوں نے امریکی ایوان نمائندگان کی قائمہ کمیٹی کو موبائل فون کے نقصانات سے آگاہ کیا اور تجویز کیا کہ موبائل فون کے استعمال کرنے والوں کو اس کے مضر اثرات سے خبردار کیا جانا چاہیے۔
یونی ورسٹی آف پٹسبرگ کے کیسز انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر رونلڈ ہربرمین نے آگاہ کیا ہے کہ ایسی تمام ریسرچز جو یہ کہتی ہیں کہ موبائل فون کے استعمال اور دماغ میں رسولی پیدا ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ درحقیقت بہت پرانی ہوچکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی ریسرچرز جو یہ کہتی ہے کہ موبائل کے استعمال اور کینسر میں کوئی تعلق نہیں ’’وہ ہفتے میں ایک بار موبائل کے استعمال کو کثرت سے استعمال سے تعبیر کرتی ہیں‘‘ جب کہ حالیہ دور میں موبائل فون کا استعمال انتہائی بڑھ چکا ہے۔
ڈیوڈ کارپنٹر اور ڈاکٹر ہربرمین کی تحقیق کے مطابق موبائل فون استعمال کرنے والے بچوں میں کینسر کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے انہوں نے ایک ایسا ماڈل بھی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ موبائل فون سے خارج ہونے والی برقناطیسی شعاعیں بالغوں کے مقابلے میں بچوں کے دماغ میں کتنی دور تک گھس جاتی ہیں۔
ڈاکٹر ہربرمین کا کہنا ہے کہ ان کا یہ انتباہ اس تحقیق کی بنیاد پر ہے جس کی ابھی اشاعت نہیں ہوئی ’’ہمیں اس حوالے سے کسی تحقیق کی اشاعت کا انتظار کیے بغیر حفاظتی اقدامات کرنے چاہییں مجھے یقین ہے کہ اس وقت بھی اتنی تحقیق موجود ہے جس کے بل بوتے پر موبائل فون کے استعمال میں احتیاط کرنی چاہیے۔‘‘
ڈاکٹر ہربرمین کا کہنا ہے کہ بچوں کو موبائل فون کے استعمال سے دور رکھا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ موبائل پر بات کرتے وقت ایک ہی کان کو مسلسل استعمال نہ کریں اور بچے صرف ایمرجینسی کی صورت میں موبائل فون استعمال کریں جب کہ بڑے کو شش کریں کہ فون کو اپنے سر سے دور رکھیں۔
گزشتہ برس ایک سروے میں ثابت ہوا کہ 16 سے 20 سال کی عمر کے نوجوان ایک دوسرے کو میسج کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ رائل سوسائٹی آف لندن نے ایک پیپر شائع کیا ہے جس کے مطابق وہ بچے جو بیس سال کی عمر سے پہلے موبائل فون کا استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں ان میں انتیس سال کی عمر میں دماغ کے کینسر کے امکانات ان لوگوں سے پانچ گنا بڑھ جاتے ہیں جنھوں نے موبائل کا استعمال بچپن میں نہیں کیا۔ تاہم موبائل فون کا استعمال موبائل فون کے ذریعے آن لائن گیمز کا استعمال موبائل فون میں انسٹالڈ گیمز کا استعمال کمپیوٹر یا ٹی وی پر گیمز کا استعمال یا ویڈیو گیمز پر گیمز کے استعمال کے اثرات میں فرق ہے اسی طرح گیمز کے اثرات بھی اس کی نوعیت پر منحصر ہیں۔
پر تشدد گیمز ایکسر سائز گیمز کی نسبت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ ماہرین متفق ہیں کھیل کود اور ورزش انسان کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور ویڈیو گیمز سمیت بیٹھ کر کھیلی جانے والے اکثر کھیلوں کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان سے وزن میں اضافہ ہوتا ہے۔ تاہم ایک نئے مطالعاتی جائزے سے یہ دل چسپ انکشاف ہوا ہے کہ ویڈیو گیمز ایسے بھی ہیں جو بچوں میں موٹاپا کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایسے ویڈیو گیمز کھیلنے سے ورزش کے تقاضے کچھ نہ کچھ پورے ہوسکتے ہیں۔
پروفیسر بروس بیلی کے مطابق باکسنگ ڈانسنگ اور ساکر سمیت بہت سی اقسام کی ویڈیوگیمز میں بچے ایکسر سائز کی مشین کے مقابلے میں اپنی زیادہ توانائی خرچ کرتے ہیں۔