نفل عبادات کے ذریعے نذر ماننا

فتویٰ نمبر:5007

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

کیا نفل نماز یا روزے کسی منت کے تحت ماننا غلط یا بدعت ہے؟

جیسے منت مان لیتے ہیں کہ اگر اللہ نے ہمارا کام کردیا تو ہم اتنی نفل نماز پڑھیں گے یا روزے رکھیں گے؟

والسلام

الجواب حامداو مصليا

اس نفل عبادت کے ساتھ نذر ماننا جس کی اصل فرض یا واجب کے قبیل سے ہو شرعا جاٸز ہے، بدعت میں سے نہیں ہے۔

نماز اور روزہ چونکہ عبادات مقصودہ میں سے ہیں جن کی نفل بھی مشروع ہے اس لیے اس قسم کی نفل عبادات کی نذر ماننے میں کوٸی قباحت نہیں۔

” اما القسم الثالث فھو نذر الطاعة ان ینذر الانسان نذر طاعة مثل ان یقول: للہ علیّ نذران اصوم الایام البیض و ھی الثالث عشر والرابع عشر والخامس عشر فیلزمہ ان یوفی بنذرہ لقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ”من نذر ان یطیع اللہ فلیطعہ“ او ان یقول للہ علی نذر ان اصلی رکعتین فی الضحی فیلزمہ ان یوفی بنذرہ لانہ طاعة۔“

( شرح ریاض الصالحین: ٢٣٩/٢)

فقط۔

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: ١٥۔٨۔١٤٤٠ھ

عیسوی تاریخ: ٢٠١٩۔٤۔٢١

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں