کیا فرماتے ہیں مفتیاں کرام اس مسئلہ کے بارے میں:
ایک شخص کوئی چیز 100 روپے کی خریدتا ہے اور اسکو 1000 /2000 روپے میں فروخت کرتا ہے (اگر چہ وہ اس کا مالک ہو تا ہے جتنے میں چاہے فروخت کرے )آیا اتنا نفع (10گنا یا 20 ) رکھ فروخت کرنے کا کیا حکم ہے ؟ جائز ہے یا نا جائز ؟؟
اور شرعت نے کتنا نفع رکھنےکی گنجائش دی ہے؟تفصیل سے ذکر کریں ۔
محمد اسامہ عبدالرشید
﷽
الجواب حامدا ومصلیا
واضح رہے کہ خرید وفروخت میں زیادہ سے زیادہ نفع لینے کی شرعاً کوئی حد مقرر نہیں البتہ عام عرف وعادت سے بہت زیادہ نفع لینا اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ۔
لہذا مذکورہ صورت میں اس شخص کا 20 گنا نفع رکھنا جائز وحلال ہے لیکن مروت کے خلاف ہےبشرطیکہ دھوکہ دہی اور جھوٹ سے کام نہ لیا جائے،ورنہ خیارمغبون حاصل ہوگا۔
سنن ابن ماجه:ابواب التجارات(2/ 741)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ غَلَا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا، فَقَالَ: «إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ، الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَى رَبِّي وَلَيْسَ أَحَدٌ يَطْلُبُنِي بِمَظْلِمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ»
سنن أبي داود :باب فی بیع المضطر(3/ 255)
قَالَ عَلِيّ رضی الله عنه: سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ عَضُوضٌ يَعَضُّ الْمُوسِرُ عَلَى مَا فِي يَدَيْهِ، وَلَمْ يُؤْمَرْ بِذَلِكَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى {وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ} [البقرة: 237] وَيُبَايِعُ الْمُضْطَرُّونَ «وَقَدْ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْمُضْطَرِّ، وَبَيْعِ الْغَرَرِ، وَبَيْعِ الثَّمَرَةِ قَبْلَ أَنْ تُدْرِكَ»
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (6/ 125)
وفي القنية من اشترى شيئا، وغبن فيه غبنا فاحشا فله أن يرده على البائع بحكم الغبن، وفيه روايتان، ويفتى بالرد رفقا بالناس۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 142)
(و) اعلم أنه (لا رد بغبن فاحش) هو ما لا يدخل تحت تقويم المقومين (في ظاهر الرواية) وبه أفتى بعضهم مطلقا كما في القنية ثم رقم وقال (ويفتى بالرد) رفقا بالناس وعليه أكثر روايات المضاربة وبه يفتى ثم رقم وقال (إن غره) أي غر المشتري البائع أو بالعكس أو غره الدلال فله الرد (وإلا لا) وبه أفتى صدر الإسلام وغيره۔
الفتاوى الهندية (3/ 161)
ومن اشترى شيئا وأغلى في ثمنه فباعه مرابحة على ذلك جاز وقال أبو يوسف – رحمه الله تعالى – إذا زاد زيادة لا يتغابن الناس فيها فإني لا أحب أن يبيعه مرابحة حتى يبين……………..…
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
محمد رفیق غفرلہ ولوالدیہ
نور محمد ریسرچ سینٹر
دھوراجی کراچی
5جمادی الاولی 1441
1 جنوری 2020