”نواں سبق“ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم
”نبوت کا سفر“
”شادی کے بعد“
”محسن انسانیت صلی اللّٰہ علیہ وسلم“ نے”حسن معاشرت اپنی امت کو سکھانے کے لئے”اپنے گھر”کو ایک “مثالی گھرانہ” بنایا-میرے”نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”اور “اماں خدیجہ رضی اللّٰہُ عنہا” میں”20″سال کا فرق تھا مگر یہ ایک “مثالی جوڑا” تھا-“مفہوم حدیثِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”ہے”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو”اپنے اہل و عیال”کے لئے بہتر ہو اور”میں”اپنے اہل و عیال کے لئے سب سے بہتر ہوں”-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس کی مثال پیش کر کے دکھادی-
“اماں خدیجہ رضی اللّٰہُ عنہا” نے اپنا سارا مال “حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی خدمت میں پیش کر دیا تھا – “تجارت” کا کام بھی اسی طرح چلتا رہا-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”عرب کے مختلف شہروں میں”تجارت “کی غرض سے بھی آتے جاتے رہتے تھے اور”اماں خدیجہ رضی اللّٰہُ عنہا نے بھی”تن من دھن سے”حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” سے محبت کی٫انکی دل و جان سے خدمت کی اور ان کے”آرام و سکون کا خیال بھی رکھا-اور “میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے بھی اپنی نیکی٫ خوش اخلاقی٫خدمت خلق اور سچائی سے اپنے گھر والوں کو راحت پہنچائی ۔
”اولاد“
”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت تین بیٹوں حضرت “قاسم٫ عبداللہ اور ابراہیم رضی اللّٰہ عنھم سے نوازا- آخر الذکر حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللّٰہ عنہا سے ہوئے- اورباقی تمام اولادیں اماں خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا سے ہوئیں- تینوں بیٹے بچپن ہی میں ”داغ مفارقت“ دے گئے- حضرت قاسم رضی اللّٰہُ عنہ پہلے بیٹے تھے-انہی کے نام پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی کنیت ”ابو القاسم“ پڑی-
“اللّٰہ تعالٰی” نے اپنے ” محبوب صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کو”اپنی رحمت “4” بیٹیوں”حضرت زینب٫ رقیہ٫ام کلثوم٫اور سیدہ النساء فاطمہ رضی اللّٰہ عنھن” سے بھی نوازا تھا-
چاروں بچیوں نے اسلام کا زمانہ پایا- آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللّٰہُ عنہا نے اسلام ہی کی آغوش میں آنکھ کھولی- چاروں بیٹیاں ہجرت کے شرف سے بھی مشرف ہوئیں- حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا نے اپنے عظیم شوہر حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہُ عنہ کے ساتھ دو دفعہ ہجرت کی-یہ بہت خوبصورت جوڑا تھا-
بی بی فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا کے سوا سب بیٹیوں کا انتقال آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا٫ حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا” کی وفات بھی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے وصال کے ”6“ماہ بعد ہی ہوگئی۔(صحیح بخاری)
”زمانہء جاہلیت“میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا اخلاق و کردار“
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بچپن ہی سے ہردلعزیز اور انسانیت کا درد رکھنے والے تھے-نیکی اور بلند اخلاقی میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہ تھا-چیزیں گم ہو جاتیں تو وہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی برکت سے مل جاتی تھیں-
کھیل کود بچپن کا حصہ ہیں٫اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بچپن میں بچوں کے ساتھ کھیلا بھی ہے٫لیکن کھیل میں بھی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جھوٹے اور بیکار کھیلوں سے کوسوں دور تھے-جوانی میں بھی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہر برائی سے دور رہے-جب کبھی کوئ برائی قریب آتی بھی تو اللّٰہ تعالٰی اپنی ”رحمت“ اور اپنے”فضل و کرم“ سے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بچا لیتے تھے-ایک بار آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کعبہ کی تعمیر میں اپنے چچاؤں کے ساتھ پتھر لا رہے تھے-دوسرے بچے اپنے تہبند اتار کر کندھوں پر رکھ کر پتھر لا رہے تھے٫ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بھی اپنے”چچا“ کے کہنے پر ایسا کرنا چاہا بھی تو غیرت کے مارے بیہوش ہو کر گر پڑے-
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لڑکپن میں اپنے دوستوں کے ساتھ کسی مجلس میں تھے-ایسی مجلسوں میں دوست فضول قسم کی محفلوں اور “قصہ کہانیوں میں رات گزارتے تھے-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے بھی ان کے ساتھ وہاں رات گزارنی چاہی مگر اللّٰہ تعالٰی نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ایسی نیند طاری کر دی کہ صبح جا کر ہی آنکھ کھلی-(رحمت عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ص24)
شرک سے نفرت شروع ہی سے”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی فطرت میں رچی بسی ہوئ تھی- “عرب “کے تمام قبائل “شرک” کرتے تھے لیکن”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”شرک” سے ہمیشہ دور رہے٫کبھی بتوں کو نہیں پوجا٫کبھی ان کا طواف نہیں کیا٫ کبھی “غیر اللہ”کے نام کا “ذبیحہ “نہیں کھایا-
عرب طواف کے دوران اساف٫اور نائلہ نامی بتوں کا استلام کرتے تھے (یعنی بوسہ دیتے تھے) آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کبھی ان کا استلام نہیں کیا- عرب حج کے دوران عرفات نہیں جاتے تھے٫کہتے تھے عرفات مکہ سے باہر واقع ہے٫ہم مزدلفہ میں تو ٹھریں گے کیونکہ وہ “حرم “میں داخل ہے لیکن “عرفات” نہیں جائیں گے-
لیکن میرے”نبیء کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم”حج” کے صحیح طریقے کے مطابق”اللّٰہ تعالٰی” کے حکم سے”حج” کے دوران خود”عرفات” گئےاور حاجیوں کو بھی عرفات جانے کا حکم دیا -کیونکہ عرفات کا وقوف حج کا سب سے اہم رکن ہے-(السیرہ النبویہ للالبانی ص32-34)
نبوت ملنے سے پہلے ہی “اماں خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا”اپنے عظیم شوہر کی “اخلاقی صفات” کے بارے میں بیان فرماتی ہیں٫کہ “آپ صلی اللہ علیہ وسلم” غریبوں کے ہمدرد تھے٫ بے کسوں کی دستگیری فرماتے تھے٫یتیموں کا سہارا تھے٫قرض خواہوں کا بوجھ ہلکا کرتے تھے اور بیواؤں کی مدد کرتے تھے-(صحیح بخاری)
”گوشہ نشینی کی ابتداء“
جب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی عمر مبارک”35″ سال ہوئی تو نبوت کے سفر کی شروعات ہونے لگی- “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو “خلوت “محبوب ہونے لگی-
میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم جبل نور پر ایک غار ہے جسے ”غار حرا“کہتے ہیں٫اس غار میں کئ کئ دن رہتے اور اللّٰہ تعالٰی سے رازونیاز کرتے-
”اماں خدیجہ رضی اللّٰہ عنہ“زادراہ تیار کر کے دیتیں یا پھر خود اس پہاڈی کر چڑھ کر پہنچا کر آتیں- آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کائنات کی تخلیق پر غور و فکر کرتے٫اہل مکہ” جس پستی میں گرتے جارہے ہیں اس پر کڑھتے رہتے٫ اور ان کی ہدایت کے لئے فکر مند رہتے-
“نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو”سچے خواب” نظر آتے- اور جو خواب دیکھتے صبح وہی حقیقت میں ہو جاتا- “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو”نبوت کے اشارے ملتے-شجر٫ہجر “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو سلام کرتے-“غیبی آوازیں سنائی دیتیں٫اور روشنیاں نظر آتیں-(فتح الباری٫حدیث بدالوحی)
“انبیاء علیہم السلام”کی زندگی میں پہاڑوں کی اہمیت بڑی نمایاں رہی ہے-
“باوا آدم علیہ السلام٫اور اماں حوا”کی ملاقات “جنت”سے نکلنے کے کافی سالوں بعد”عرفات” میں”جبل رحمت” پر ہوئ-
“نوح علیہ السلام” کا سفینہ”کوہ جودی” پر ٹھرا-
“حضرت اسماعیل علیہ السلام “کی پیاس سے بےتاب ہوکر”بی بی ہاجرہ” تلاشِ آب میں”صفاء اور مروہ” پر سات بار دوڑیں- اللّٰہ تعالٰی کو انکی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اس کو حج وعمرہ کا حصہ بنا دیا-
“حضرت عیسیٰ علیہ السلام” کی زندگی میں “کوہ زیتون” بہت اہم ہے-
“جبل نور”پر”غار حرا” ہے جہاں”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”پر پہلی وحی نازل ہوئی- “جبل ثور”میں ہجرت کے دوران”میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے “”3″دن”اللّٰہ تعالٰی” کے حکم سے گزارے-
اور”جبل احد” سے” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو خصوصی لگاؤ تھا- “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فرمایا”ہم”جبل احد سے محبت کرتے ہیں اور “جبل احد” ہم سے محبت کرتا ہے-
“توریت میں”خاتم النبیین” حضرت احمد مجتبیٰ” محمد مصطفی صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم” کی آمد کے بارےمیں ارشاد ہے٫ “اللّٰہ تعالٰی”سینا سے آیا٫ “سعیر سے چمکا٫اور فاران سے سربلند ہوا-
“سینا” سے مراد”حضرت موسیٰ علیہ السلام” کی دعوت٫سعیر” سے مراد “حضرت عیسیٰ علیہ السلام” کی دعوت ہے-اور”فاران “سے مراد “میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی دعوت ہے-
(ختم شد٫نواں سبق)