نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم”بحیثیت قاضی و مفتی”

چودہواں سبق

نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم بحیثیت قاضی و مفتی 

“نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا منہج قضاء”

“تعلیمات الہیہ” میں “قضاء” کا منصب” کلیدی منصب ہے-“قرآن کریم” کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ” سابقہ انبیاء میں”حضرت داؤد علیہ السلام” اور “حضرت موسیٰ علیہ السلام” اس عہدے پر براجمان رہے ہیں-

“اسلام کے فلسفہء قضاء کا نچوڑ”عدل و انصاف کا قیام٫ ظالموں٫ غاصبوں کو سزا دیکر بنی نوع انسان کے حقوق کا تحفظ اور جابر لوگو کو حق و انصاف کی” قوت و اقتدار” کے سامنے جھکانا ہے-

“منصب قضاء”کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ان مسائل میں سے ہے جن پر “قرآن کریم”نے “توحید کے اثبات” اور شرک کی تردید” کے بعد سب سے زیادہ زور دیا ہے-کیونکہ منصفانہ قضاء کے بغیر” نظام مملکت” اندھیر نگری ہے-

بعثت سے قبل ہی “میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” اپنی” اعلیٰ صفات”کی بنیاد پر لوگوں کے ہاں” اس منصب” کے اہل ہو چکے تھے” حجر اسود” کی تنصیب کا ‘حکیمانہ فیصلہ” (جس سے تمام قبائل خونریزی سے بچ گئے تھے)اس کا منہ بولتا ثبوت ہے-“نبوت” کے بعد جب” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”اس منصب پر فائز ہوئے تو”تائید الہی” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے شامل حال رہی-جس کی بدولت تہذیب و تمدن سے کوسوں دور عرب کے اجڈ٫ ان پڑھ اور بےلگام قبائل کو”میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے قانون کے دھارے میں لا کھڑا کیا٫اور ان کی ایسی تربیت کی کہ رہتی دنیا تک انسانیت ان کے عدل وانصاف کے کارناموں کو فراموش نہیں کر سکتی-

“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اپنے “10” سالہ “مدنی” دور حکومت میں معاشرے میں رونما ہونے والے ہر قسم کے مسائل کا تسلی بخش حل پیش کر کے اسے آسان اور قابلِ عمل قرار دیا-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی حیثیت محض “قاضی” ہی کی نہیں بلکہ”شارع اور مقنن” کی بھی ہے- اسی لئے” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے فیصلوں کو”نا قابلِ ترمیم” قانون” کی حیثیت’حاصل ہے-

“خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم” صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین”غرض امت کے “مقتدر طبقات” نے “عدالتی نظام” میں”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے فیصلوں کو “مشعلِ راہ” بناتے ہوئے انہیں وہی حیثیت دی جو”قرآن کریم” کی ہے-“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اپنی زندگی میں جتنے فیصلے کئے ان میں سے اکثر “کتب احادیث و فقہ میں” جابجا موجود ہیں-

اپنے وقت کے مشہور مایہ ناز فقیہ”ابنِ الطلاع قرطبی رحمہ اللّٰہ”(متوفی 497ھ) اور شیخ ظہیر الدین مرغنائ حنفی رحمہ اللّٰہ ( متوفی501ھ)نے “اقضیاء الرسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے عنوان سے ان فیصلوں کو مستقل کتاب میں جمع کر کے امت پر احسان عظیم کیا ہے-“اول الذکر” فقیہ” کی کتاب موجود ہے٫ جبکہ مؤخر الذکر”کی کتاب” حوادثِ زمانہ” کا شکار ہو گئ-“ابن الطلاع” نے اپنے اس “انسائیکلوپیڈیا” میں سماج کے مختلف پہلوؤں٫ حدود و قصاص٫ دیت٫ جہاد٫نکاح٫ طلاق٫بیع٫ میراث٫ فیصلہ کرنے کے آداب٫ہدیہ اور آزادی “سے متعلق”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے”280″ فیصلے جمع کئے ہیں-

“محقق ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی” نے اس پر “67” فیصلوں کا استدراک کر کے “سونے پر سہاگہ” کا کردار ادا کیا – اس وقت “امت” کے سامنے” اسلامی قانون” کے “مقنن اول صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے”347″ عدل وانصاف” سے معمور” فیصلوں کا مجموعہ” ہے جو قدم قدم پر انسانیت کے لئے راہبر و راہنما ہیں-

“قضاء کے زریں اصول”

“رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے “منصب قضاء” کےکچھ”سنہری آداب”اور اصول وضع

کئے ہیں-فیصلہ کرتے وقت انہیں ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے٫تاکہ “فلسفہء قضاء” یعنی”عدل و انصاف” کا قیام بحسن و خوبی ادا ہو سکے-

1-“غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرنا-

ماہرین نفسیات کے مطابق “غصہ” خون کھولنے سے پیدا ہوتا ہے٫ جس کی وجہ سے آنکھوں پر جذبات کا پردہ پڑنے سے انسان حق وباطل میں تمیز نہیں کر پاتا-

2-“شدید بھوک اور پیاس کی حالت میں فیصلہ نہ کرنا-

اس لئے کہ”بھوک اور پیاس” آدمی کی سوچ پر اثرانداز ہوتی ہے٫ جس سے “معاملہ فہمی” میں باریک بینی رہتی ہے-

3-“فریقین کی بات سنے بغیر فیصلہ نہ کرنا-

اس لئے کہ فریقین کی بات سن کر ہی” مقدمہ” کی نوعیت سمجھ میں آئےگی-

4-“برابری کرنا”

“نشست و برخاست” دیکھنے”اشارہ کرنے اور بات کرنے میں فریقین میں برابری کرنا-

5-“مساوات”

فیصلہ کرنے میں “امیر و غریب” اور”آزاد و غلام” کے درمیان”مساوات” کرنا٫اگر ایسا نہ کیا جائے تو “قضاء” کی روح باقی نہیں رہے گی-

“پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے تربیت یافتہ قاضی”

” بحیثیت نبی”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے گونا گوں” فرائض منصبی” تھے- دوسری طرف”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے “سیاسی جدو جہد” کے ثمرات کی بدولت “سلطنت اسلامیہ” کا دائرہء کار” انتہائی وسیع کو چکا تھا- ہر علاقوں کے باشندوں کے مقدمات کی سماعت”از خود کرنا ممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا-

عہدہء قضاء” کے پیشِ نظر” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے ہر علاقے کے لئے اپنے جانثار” “صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” اس عہدے پر فائز کئے-اور وقتاً فوقتاً انہیں مزید تربیت بھی دیتے رہے-

“ڈاکٹر حلیم چشتی حفظہ اللہ” کی کتاب”عہد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم “میں ” صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کی فقہی تربیت” وہ گوہرِ نایاب”ہے٫جس میں “رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے تربیت یافتہ” تمام”فقہاء اور قضاء” کا عکس نظر آتا ہے-

چند “صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کے نام جنہیں” رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اپنی زندگی میں ہی”قضاء” کا عہدہ سونپا”

” حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ”اور”حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ” مدینہء منورہ کے”قضاء” مقرر کئے گئے-

“حضرت معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہ” یمن کے قاضی مقرر کئے گئے-

“حضرت العلا بن الحضرمی”رضی اللّٰہ عنہ”قاضیء بحرین” “حضرت معقل بن یسار رضی اللّٰہ عنہ”حضرت عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہ”حضرت عقبہ بن عامر رضی اللّٰہ” حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللّٰہ عنہ” “حضرت عیسیٰ رضی اللّٰہ عنہ قاضیء یمامہ” “حضرت عتاب بن اسید رضی اللّٰہ عنہ”حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللّٰہ عنہ”قاضیء یمن”حضرت ابی بن کعب رضی اللّٰہ عنہ٫حضرت زید بن ثابت رضی اللّٰہُ عنہ٫اور” حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ” بھی قاضیء مدینہ منورہ”سر فہرست ہیں-

“10” سال کے اس قلیل عرصے میں” عدل وانصاف” کے پیکر” “عالمگیر نبی “محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” جنکی عدالت میں”لخت جگر”خاتون جنت “سیدہ فاطمتہ الزہرہ رضی اللّٰہ عنہا”اور ایک اجنبی خاتون یکساں ہیں-

ایسی “بےمثال سیاست” اوربالکل نرالی”قضاء” سے عرب کے بگڑے جاہلانہ معاشرے میں”12 لاگھ” مربع میل” پرپھیلی ایسی ” مستحکم اور بے نظیر” مملکت قائم کی کہ جس کا” طرہء امتیاز”عدل وانصاف رہا-

“خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم” کے وضع کردہ”قضاء کے سنہرے اصول” رہتی دنیا تک انسانیت کے لئے مشعلِ راہ ہیں اور انکی روشنی میں ہر دور کے”مفکرین” اپنی راہیں متعین کر سکتے ہیں-

“نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا منہج افتاء”

“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی ذات اقدس “علوم” کا مرکز و منبہ تھی-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”جہاں ایک طرف” نبی٫ رسول٫ مفسر قرآن ٫فقیہ٫ قاضی٫مجاہد٫ سیاسی رہنما٫مدبر اور عسکری قائد” تھے٫وہیں دوسری طرف”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”مفتی بھی تھے-“٫خود فتاویٰ بھی دیتے تھے اور بعض” صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کو بھی اس کے لئے تیار کیا-

“اصولِ فقہ اور افتاء”

“فقہ اور فتاویٰ” کے حوالے سے” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے”امت” کو یہ اصول دیئے-

1-“قرآن وسنت” سے مسءلے کا حل نہ ملے تو”فتویٰ” کے اہل علماء (مفتی حضرات)اجتہاد سے کام لیں-اس سلسلے میں”حضرت معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہ”کو”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اپنے آخری ایام میں” یمن” کا حاکم بنا کر بھیجا تھا تو جو”گفتگو” اس معاملے میں کی تھی وہ روایت مشہور ہے-

2-“ہر کس و ناکس” فتویٰ دینے اور قاضی بننے کا اہل نہیں-اس کے لئے” علوم اور صلاحیتیں درکار ہیں-چنانچہ”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے بعض “کبار صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”کو فتویٰ دینے کی اجازت دی اور انہیں”قاضی” بنا کر بھیجا-

3-بغیر تحقیق کے”فتویٰ” نہ دیا جائے-” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے بغیر تحقیق”فتویٰ” دینے والے کو دوزخ کا حقدار قرار دیا-

4-“فتویٰ” کے “اہل علماء” کا اختلاف برا نہیں بلکہ امت کے لئے “باعثِ رحمت” ہے-

5-“تحقیق” بدل جائے تو سابقہ” فتویٰ” سے رجوع کرنے میں عار محسوس نہیں کرنی چاہئے-اس سلسلے میں”غزوہء بدر” کے” قیدیوں کا واقعہ” اور ” “سورہ مجادلہ” کا شان نزول” دیکھ لیا جائے-

6-عوام کو تنگی اور جرح سے بچانا چاہئے-ارشاد ہے” یسروا ولا تعسروا٫ وابشروا ولا تنفروا-

7-اس عرف اور تعامل کا ضرور لحاظ کرنا چاہئے جو”قرآن وسنت” کے خلاف نہ ہو-“عبداللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ” کے اس فرمان سے یہی اخذ کیا گیا ہے-“ماراءہ المسلمون حسنا٫ فھو عنداللہ حسن”-

8-جو امور” قرآن و سنت کے خلاف نہیں ان میں اپنے بڑوں کے اور انتظامیہ کے تابع رہنا چاہئے-اس سلسلے میں”امیر کی اطاعت والی روایت” مد نظر رہنی چاہئے-

9-“اسلام اور کفر” کے معاملے میں ظاہر کو دیکھنا چاہیئے-نیتوں کا حال” اللّٰہ تعالٰی” کو معلوم ہے-

19-“علت” پر حکم کا دارومدار ہوتا ہے-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے ” بلی” کے جھوٹے کو “نجس”قرار نہیں دیا٫ اس لئے کہ وہ کثرت سے گھروں میں آتی جاتی رہتی ہے-جس میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ ” تمام گھریلو” جانوروں کا یہی حکم ہے” کہ ان کا جھوٹا ناپاک نہیں-

11-اضطرار اور حاجت کی بنا پر حکم میں تخفیف پیدا ہو جاتی ہے- جب کھانے کے لئے” مردار” کے علاوہ کچھ نہ ہو اور اضطراری صورتحال پیدا ہو جائے تو”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے” زندہ رہنے کے لئے”مردار کھانے کی اجازت دی ہے اور خارش کی وجہ سے ریشم پہننے کی اجازت دی ہے-

12-کسی جائز کام سے فتنہ ہونے کا فوری خطرہ ہو تو اس کام کو فوراً روک دینا چاہیے- کفار کے سامنے ان کے بتوں کو بھی گالی دینے سے اسی لئے منع فرمایا گیا ہے٫کہ اس سے” کفار کے اندر اشتعال پیدا ہوتا ہے-٫اور وہ اشتعال میں آ کر “اللّٰہ تعالٰی” اور “اس کے “رسول اللہ کو( نعوذ باللہ) گالی دے سکتے ہیں-

” غصہ٫اور شدید بھوک اور کسی بھی ایسی حالت میں فتویٰ نہیں دینا چاہئے-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے منع فرمایا ہے” ایسی حالت میں”انسانی طبیعت اعتدال پر نہی رہتی-

14-لایعنی اور “پہیلی نما” سوالات کا جواب نہیں دینا چاہئے- “میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے ایسے لوگوں کی ہلاکت کی بددعا فرمائی ہے جو ” لایعنی اور خوامخواہ” کے سوالات کرتے ہیں-

15- ایسے مسائل کا جواب نہیں دینا چاہئے جو ابھی پیش نہیں آئے-(وما علینا الاالبلاغ)

( ختم شد٫ 14ھواں سبق،)

حوالہ: سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم”کورس-

مرسلہ:خولہ بنت سلیمان-

اپنا تبصرہ بھیجیں