سوال: کیا نبیذ تمر سے وضو جائز ہے؟
جواب:نبیذ تمر کی مختلف اقسام ہیں، ہر قسم کا حکم الگ ہے:
١) کھجوریں پانی میں ڈال کر مٹھاس پیدا ہونے سے پہلے نکال لی جائیں اورپانی کی رقت(پتلاپن) اور سیلان(بہنے کی صفت) باقی ہو تو ایسی نبیذ سے بالاتفاق وضو جائز ہے۔ کیونکہ سرے سے یہ نبیذ ہی نہیں ہے بلکہ ماء مطلق ہے۔
٢)کجھوریں ڈالنے کے بعد مذکورہ پانی گاڑھا اور نشہ آور ہو جائے تو اس سے بالاتفاق وضو ناجائز ہے۔
٣) کجھوریں ڈالنے کے بعد پکانے سے یا پکانے سے پہلے پانی میں مٹھاس آجائے،لیکن پانی میں رقت اور سیلان رہے تو اس سے وضو کرنے میں اختلاف ہے،راجح قول کے مطابق اس سے وضو نہیں کرسکتے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ شروع میں اس سے وضو کو جائز فرماتے تھے لیکن بعد میں آپ نے اس سے رجوع کرلیا تھا۔
========================
حوالہ جات
١)قال عطاء التيمم أحب إلي من الوضوء بالنبيذ و اللبن.(صحيح البخاري ج١ ص٣٨.حديث رقم
باب لا يجوز الوضوء بالنبيذ ولا بالمسكر وكرهه.)
ترجمہ؛ حضرت عطاء رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں زیادہ پسند کرتا ہوں تیمم کرنا بجائے اس کے کہ نبیذ تمر سے وضو کروں۔
٢) وعن ابي زيد عن عبدالله بن مسعود رضي الله تعالى عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم قال له، ليلة الجن مافي اداوتك قال ، قلت؛ نبيذ،
قال تمرة طيب ماء طهوره
(رواه سنن إبي داود حديث رقم ٨٤..باب الوضو بالنبيذج١ ص٢٣)
ترجمہ؛۔ او حضرت ابوزید رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لیله جن میں ان سے پوچھا کہ تمہاری چھاگل میں کیا ہے ؟ عبد الله بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ نبیذ ہے” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کھجوریں پاک ہیں اور پانی پاک کرنے والا ہے۔
٣) عن ابن جريج عن عطاء قال انه كره الوضو باللبن والنبيذ فقال اعجب الي منه.
( سنن ابی داود حديث رقم ٨٦ .باب الوضو بالنبيذ ج١ ص٢٣)
ترجمہ؛ ابن جریج روایت کرتے ہیں عطا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ وہ دودھ اور نبیذ سے وضو کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ میرے نزدیک تیمم اس سے بہتر ہے ۔
٤)ابو خلده قال سالت الا العاليه عن رجل اصابته حنابة وليس عنده ماء وعنده نبيذ أيغتسل به قال لا.
( سنن إبي داود .حديث رقم ٨٧. باب الوضو بالنبيذ.ج١ ص ٢٣)
ترجمہ،؛ حضرت ابو خلدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ابو العالیہ سے پوچھا کہ ایک شخص کو غسل کی حاجت ہوئی مگر اس کے پاس پانی نہیں ہے، البتہ نبیذ ہے تو کیا وہ اس سے غسل کر سکتا ہے ؟ فرمایا نہیں۔
کتب فقہ:
١). والنبيذ المختلف فيه ان يكون حلوة” رقيقا” يسيل على الأعضاء كالماء وما أشتد منها صار حراما” لا يجوز التوضي به وان غيرته النار فما دام حلوا” فهو على الخلاف وان أشتد فعند إبي حنيفه رحمه الله يجوز التوضي به لأنه يحل شربه عنده وعند محمد رحمه الله لا يتوضا به الحرمة شربه عنده ولا يجوز التوضي بما سواه من الانبذه جريا على قضية القياس؛
( هدايه ج ١ ص ٤٧)
٢) ونبيذ تمر : أي: على القول الضعيف بجواز الوضوء به فهو كالتيمم لأنه بدل عن الماء حتى لا يجوز به حال وجود الماء ويتنقض به اذا وجد ، ذكره قدؤري في شرحه عن اصحابنا
( فتاوى شاميه ج١ ص ٢٣٩).
٣). ثلاث روايات عن ابي حنيفه رحمه الله : الاولى وهو قوله الأول انه يتوضا به جزما” وبضيف التيمم إليه استحبابا” ، والثانيه يجب الجمع بينه وبين التيمم طيور الحمار وله قال محمد واختاره في غاية البيان ورجحه، والثالثه انه يتيمم ولا يتوضا به وهو قوله الاخر وقد رجع إليه وهو الصحيح، وبه قال ابو يوسف رحمه الله و الشافعي رحمه الله، ومالك، و احمد ، و اكثر العلماء و اختاره الطحاوي,استحبابا” . والثانية: يجب الجمع بينه وبين التيمم كسور الحمار وبه قال محمد واختاره في غاية البيان ورجحه., والثالثة :أنه يتيمم ولا يتوضأ به وهو قول الآخر وقد رجع إليه وهو الصحيح، وبه قال أبو يوسف والشافعي ومالك وأحمد وأكثر العلماء واختاره الطحاوي . وحكي عن أبي طاهر الدباس أنه قال : إنما اختلفت أجوبة أبي حنيفة لاختلاف الأسئلة فإنه سئل عن التوضؤ به إذا كانت الغلبة للحلاوة قال بتيمم ولا يتوضأ به، وسئل مرة؛ إذا كان الماء والحلاوة سواء قال يجمع بينهما، وسئل مرة: إذا كانت الغلبة للماء فقال يتوضأ به ولا يتيمم. وبالجملة فالمذهب المصحح المختار المعتمد عندنا هو عدم الجواز موافقة للأئمة الثلاث .
( البحر الرائق، كتاب الطهارة، ص ٣٣٨,٣٣٩,٣٤٠)
والله اعلم بالصواب