سوال :ایک لڑکی کا نکاح بچپن میں اس کے چچا نے کروا دیا ۔اس بچی کو حق خیار بلوغ کا معلوم نہیں تھا بلوغت کے چار سال بعد لڑکی کو اس حق کا پتا چلا ۔کیا وہ یہ حق استعمال کر سکتی ہے یا نہیں ؟
الجواب :مذکورہ صورت میں چونکہ باپ دادا کے علاوہ چچا نے بلوغت سے قبل لڑکی کا نکاح کرایا تھا،جب چچا اپنی بھتیجی کا نکاح کرالے تو بھتیجی کو خیارِ بلوغ ملتا ہے،لیکن خیار بلوغ میں بلوغت کے فوراً بعد کے انکار کا اعتبار ہوتا ہے۔ بلوغت کے چار سال بعد انکار کا اعتبار نہیں ہے۔لہذا اب چار سال بعد لڑکی خیارِ بلوغ کو استعمال نہیں کرسکتی۔
=====================
حوالہ جات
1۔(وللولي) الآتي بيانه (إنكاح الصغير والصغيرة) جبرا ،(ولو ثيبا) كمعتوه ومجنون شهرا، (ولزم النكاح ولو بغبن فاحش) بنقص مهرها وزيادة مهره (أو) زوجها (بغير كفء إن كان الولي) المزوج بنفسه بغبن (أبا أو جدا). (وبطل خيار البكر بالسكوت) (ولا يمتد إلى آخر المجلس) لأنه كالشفعة.
( ردالمحتار علی در المختار : 166 / 3 )
2۔ وان زوجهما غير الاب والجد فلكل واحد منهما الخيار إذا بلغ ان شاء قام علی النکاح وان شاء فسخ.
(فتاوی هندية : 314 / ا مکتبه قدیمی کتب خانه)
3۔ باپ اور دادا کے سوا کسی اور نے نکاح کردیا اور لڑکی کو نکاح کی خبر تھی پھر بالغ ہوگئی اور اب تک شوہر نے اس سے صحبت نہیں کی توجس وقت بالغ ہوئی ہے ، فورا اسی وقت اپنی ناپسندیدگی ظاہر کردے کہ میں راضی نہیں ہوں یا یوں کہے : ” میں اس نکاح کو باقی رکھنا نہیں چاہتی” چاہے وہاں کوئی اور ہو یا نہ ہو ، بلکہ بالکل تنہا بیٹھی ہو ، ہر حال میں کہنا چاہیے ۔
( بہشتی زیور : 32)
والله اعلم بالصواب