نعت خوانی کے ذریعے ایصال ثواب کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ !

خواتین گھر میں جو ایصال ثواب کے لیے نعت خوانی کرواتی ہیں تو نعت کے ذریعے ایصال ثواب کا کیا حکم ہے؟بلا شبہ نعت ایک بڑی چیز ہے لیکن اس کو ایصال ثواب کا ذریعہ بنانا کیا درست ہوگا؟

الجواب باسم ملھم الصواب

حضور اقدس ﷺ کی شان میں حقیقت پر مبنی مدحیہ کلام پڑھنا بلا شبہ جائز اور کار ثواب ہے ،لہذا اگر کوئی شخص شرعی شرائط کی پابندی کرتے ہوئے نبی ﷺ کی شان میں نعت پڑھے تو اس کا ثواب مرحومین کا بخش سکتا ہے ،البتہ ہمارے زمانے میں آج کل نعتیہ مجالس میں شریعت کی کچھ خلاف ورزیاں ہوتی ہیں مثلاً:خواتین کا بے پردہ شریک ہونا،بلند آواز میں نعت پڑھنا جو غیر محرم بھی سنیں وغیرھم ۔

لہذا اس طرح کی نعت خوانی کی محفل منعقد کرنے سے بچنا ضروری ہے۔

البتہ اس طرح کی خواتین کی اجتماعی نعت خوانی کی بجائے انفرادی تلاوت کا ثواب ،مالی صدقہ و خیرات اور دیگر نفل عبادات کے ذریعے ایصال ثواب کیا جائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1. حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى الفَزَارِيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالاَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ، يَقُومُ عَلَيْهِ قَائِمًا يُفَاخِرُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَتْ: يُنَافِحُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَقُولُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّ اللَّهَ يُؤَيِّدُ حَسَّانَ بِرُوحِ القُدُسِ مَا يُفَاخِرُ، أَوْ يُنَافِحُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”.(سنن الترمذي:رقم الحديث:2846،باب ما جاءفي إنشاد الشعر،ط:دارالغرب الإسلامی)

ترجمہ: حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں :رسولﷺ حسان ؓ کے لیے مسجد میں منبر رکھوایا کرتے تھے ،وہ اس پر کھڑے ہو کر رسول ﷺ کی جناب سے ہجو کیا کرتے تھے۔۔۔۔ رسولﷺ نے فرمایا :بے شک اللہ حسان ؓ کی روح قدس کے ذریعے مدد فرماتے ہیں جب تک وہ رسولﷺ کی طرف سے ہجو کرتے رہیں ۔

2. “عن أسيد بن علي بن عبيد، مولى بني ساعدة عن أبيه، عن أبي أسيد مالك بن ربيعة الساعدي، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذ جاء ه رجل من بني سلمة، فقال: يا رسول الله، هل بقي من بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال: «نعم الصلاة عليهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما، وإكرام صديقهما».” سنن أبي داود (4/ 336)

ترجمہ:ابو اسید مالک بن ربیقہ سعدی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار ہم رسولﷺ کے پاس موجود تھت جب بنی سلمہ کا ایک شخص آیا اور کہا:یا رسول اللہ:کیا کوئی حسن سلوک باقی بچا ہے جو میں اپنے والدین کی موت کے بعد کرسکوں ؟ فرمایا:ہاں ! ان کےلیے دعا کرو،استغفار کرو،ان کے عہد و معاہدوں کو نافذ کرو،اور ان کے رشتے داروں سے صلہ رحمہ کرو ،ان کے دوستوں کا اکرام کرو۔

3. وعلی ہذا الحداء وقراء ۃ الشعر وغیرہ ولا أجر في ذلک ہذا کلہ عند أئمتنا الثلاثۃ۔ (ہندیۃ، کتاب الإجارۃ، الباب السادس عشر في مسائل الشیوع ، زکریا قدیم 4 /449، جدید 4/ 486)

4. “وصوتها على الراجح وذراعيها على المرجوح.

(قوله: وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله: على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام: «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلايحسن أن يسمعها الرجل. اهـ ۔۔۔۔۔۔ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة.” الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 406):

5. حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ذکر مبارک خواہ ذکر ولادت ہو خواہ جہاد وصلاۃ ونکاح وغیرہ باعث برکت وموجب ثواب ہے؛ لیکن اس زمانہ میں مجلس میلاد بہت سے منکرات وممنوعات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعاً ممنوع ہے اور اس پر اجرت لینا بھی ناجائز ہے، وعظ وتقریر اگر منکرات شرعیہ سے خالی ہو تو اس پر متاخرین فقہاء نے اجرت لینے کی اجازت دی ہے۔ (فتاوی محمودہ قدیم 11/ 48-50، جدید ڈابھیل 3/ 181)

فقط واللہ اعلم بالصواب

قمری تاریخ:۳/ رجب /۱۴۴۳ھ

عیسوی تاریخ:5/فروری/2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں