میت کو ضرورت کی بنا پر برف پر رکھنا

سوال:کیا میت کو ضرورت کی بنا پر برف پر رکھنا درست ہے کیا اس کو تکلیف ہوتی ہے؟ ۔ فتاوی رحیمیہ کی عبارت میں تکلیف کا ذکر ہے ۔
منتقل کرنے میں میت کی بے حرمتی کا بھی زیادہ امکان ہے ، ضرورت سے زیادہ میت کو حرکت ہوتی ہے اور بسا اوقات لاش کو برف پر رکھا جاتا ہے جو بجائے خود میت کے لئے تکلیف کا سبب ہے اور میت کو تکلیف پہنچانا ممنوع ہے ۔۔۔۔الخ
(فتاویٰ رحیمیہ، ج7، ص 130، کتاب الجنائز ، ط: دار الاشاعت)
الجواب باسم ملہم الصواب
جی ہاں، فتاوی رحیمیہ کی یہ بات درست ہے۔ حدیث مبارکہ میں یہی آتا ہے کہ جس چیز سے زندہ کو تکلیف ہوتی ہے اسی طرح مردہ کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔تاہم اگر لاش خراب ہونے کا اندیشہ ہوتو پھر میت کےارد گرد برف رکھ دی جائے،میت کو برف پر نہ رکھا جائے۔
———————–
حوالہ جات :
1.کسر عظم المیت ککسرہ حیّا.
(سنن ابو داود: 3207)
  ترجمہ: مردے کی ہڈی کو توڑنا ایسا ہی  ہے جیسا کسی زندہ  کی ہڈی توڑنا۔

2.لاَ يَنْبَغِي لجِيفَةِ مُسْلِمٍ أنْ تُحْبَسَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ أَهْلِهِ.
(سنن ابوداود :3159)
ترجمہ :کسی مسلمان کی نعش کو اس کے اہل وعیال میں زیادہ دیر روک کر نہ رکھا جائے۔
—————————————–
1.وفی الشامیہ : تحت( قولہ والا فما ء خالص مغلی)
ای اغلا ء وسطا لان المیت یتاذی بما یتاذی بہ الحی۔۔۔ الخ
(الفتاوی شامیہ: جلد 2، صفحہ196)

2.قوله: ويسرع في جهازه)؛ لما رواه أبو داود «عنه صلى الله عليه وسلم لما عاد طلحة بن البراء وانصرف، قال: ما أرى طلحة إلا قد حدث فيه الموت، فإذا مات فآذنوني حتى أصلي عليه، وعجلوا به؛ فإنه لا ينبغي لجيفة مسلم أن تحبس بين ظهراني أهله». والصارف عن وجوب التعجيل الاحتياط للروح الشريفة؛ فإنه يحتمل الإغماء”.
(الفتاوی شامیہ: جلد 2، صفحہ 193)

3.وفی الخانیہ: ولا یکسر عظام الیھود اذا وجدت فی قبورھم لان حرمۃ عظامھم کحرتہ عظام المسلم
(الفتاوی خانیہ: جلد 1، صفحہ 195)

4.البحر الرائق و تحت (قولہ ولا یخرج من القبرالا ان تکون الارض مغصوبۃ) ای بعد ما اھیل التراب علیہ(الی قولہ) وفی الواقعات عظام الیھود لھا حرمۃ اذا وجدت فی قبورھم کحرمۃ عظام المسلمین حتی لا تکسر الخ۔
(البحر الرائق: جلد 2،صفحہ 195)
——————————————-
1.منتقل کرنے میں میت کی بے حرمتی کا بھی زیادہ امکان ہے ، ضرورت سے زیادہ میت کو حرکت ہوتی ہے اور بسا اوقات لاش کو برف پر رکھا جاتا ہے جو بجائے خود میت کے لئے تکلیف کا سبب ہے اور میت کو تکلیف پہنچانا ممنوع ہے ۔۔۔۔الخ
(فتاویٰ رحیمیہ، ج7، ص 130)

2.میت کو غسل دینے کے لیے پانی اتنا گرم کیا جائے جتنا وہ اپنی زندگی میں استعمال کرتا تھا بہت تیز گرم نہ ہو۔
(فتاوی رحیمیہ: جلد 7، صفحہ 131)

3.اگربیری کے پتے ڈال کر پکایا ہوا پانی نہ ہو یہی سادہ نیم گرم پانی کافی ہےاسی سے اس طرح تین دفعہ نہلا دیوے اوربہت تیز گرم پانی سے مردے کو نہ نہلاؤ۔
(تسھیل بہشتی زیورات: جلد 1، صفحہ 368)
———————————————
واللہ اعلم بالصواب
19ستمبر2022
23صفر 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں