میت کو دفنانے کے لئے دور لیجانا، embalming کرنا کیسا ہے

سوال: السلام علیکم۔ میں آئرلینڈ رہتی ہوں۔ یہاں جب بھی کسی کی وفات ہوتی ہے تو یہ بحث شروع ہو جاتی ہے کہ میت کو پاکستان لے جایا جائے یا یہیں دفنایا جائے۔ اگر میت کو پاکستان لے جانا ہو تو embalming بھی کی جاتی ہے کہ میت درست حالت میں رہے۔ اس معاملے میں اسلامی احکامات کیا ہیں؟
ادھر ایک قبرستان کا آدھا حصہ مسلمانوں کو دیا ہوا ہے۔ میرے میاں کا کہنا ہے کہ وہ مشرکوں کے قبرستان دفن ہونا پسند نہیں کریں گے جبکہ مجھے اس معاملے میں پاکستان لے جانا اس لیے بہتر نہیں لگتا کہ embalmn (میت کو ادویات و طبی عمل کے ذریعے بوسیدگی سے بچانا) ایک طرح سے میت کے لیے تکلیف اور بے حرمتی کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ اس لیے میں یہ وصیت لکھنا چاہتی ہوں کہ مجھے یہیں دفنایا جائے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

الجواب باسم ملھم الصواب:
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
واضح رہے کہ میت جس شہر میں فوت ہو جائے وہیں دفن کرنا مستحب ہے۔ میت کی تدفین میں بلا عذر شرعی تاخیر کرنا اور دوسرے شہر منتقل کرنا مکروہ ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں آپ کا اپنے لیے وہیں وفن ہونے کی وصیت کرنا شریعت کے عین مطابق ہے۔
رہی آپ کے شوہر کی یہ بات کہ”مجھے مشرکوں کے قبرستان میں دفن ہونا پسند نہیں“یہ اس وقت درست ہوتی جب کہ قبرستان صرف مشرکین کا ہوتا،جبکہ سوال میں وضاحت ہے کہ مسلمانوں کے دفن کی الگ جگہ ہے،لہذا وہاں دفن ہونے میں کوئی قباحت نہیں۔

************
حوالہ جات :
1: ويستحب في القتيل والميت دفنه في المكان الذي مات في مقابر أولئك القوم، وإن نقل قبل الدفن إلى قدر ميل أو ميلين فلا بأس به، كذا في الخلاصة. وكذا لو مات في غير بلده يستحب تركه فإن نقل إلى مصر آخر لا بأس به
الفتاوى الهندية (4 / 485)٫كتاب الإجارة -الفصل الثاني اختلاف الآجر والمستأجر في وجود العيب بالأجرة، ط: دار الفکر

2: وقولها: لو شهدتك ما زرتك إلا في مكانك الذي مت فيه؛ دليل دفن الميت في مكانه الذي مات فيه، وفي مقابر ذلك القوم أفضل. قال محمد رحمه الله في «السير»: أحب إلينا أن ندفن الميت والقتيل في المكان الذي مات فيه في مقابر المسلمين … وإن نقل ميلاً أو ميلين أو نحو ذلك فلا بأس به، فقد نهى الناس عن النقل ميلاً أو ميلين، فهذا دليل على أن الزيادة على ذلك مكروه، وإنما صار قدر ميلين عفواً؛ لأنه لا بد منه في الأعم الأغلب، فإن الغالب في كل بلد أن تكون مقابرها بفنائها، وربما يكون من المكان الذي مات فيه إلى المقبرة قدر ميلين فصار هذا القدر عفواً، فأما الزيادة على ذلك …. الأعم والأغلب، وفيه تشبه باليهود وحمل الجنائز من غير فائدة فيكره؛ قال شمس الأئمة السرخسي في شرح «السير»: لو لم يكن في نقله إلا تأخير دفنه، لكان كافياً في كراهته، وذكر شيخ الإسلام في «شرحه»: أن نقل الميت من بلد إلى بلد لغرض ليس بمكروه.
وفي «العيون»: ذكر مطلقاً أن نقل الميت من بلد إلى بلد ليس بمكروه،
المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة – (5 / 216)

3: وعن عائشة: ” (أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كسر عظم الميت ككسره حيا)
” رواه مالك، وأبو داود، وابن ماجه.

4: حَامِلٌ مَاتَتْ فَاضْطَرَبَ الْوَلَدُ فِي بَطْنِهَا فَإِنْ كَانَ أَكْبَرُ رَأْيِهِ أَنَّهُ حَيٌّ يَشُقُّ بَطْنَهَا؛ لِأَنَّ ذَلِكَ تَسَبُّبٌ فِي إحْيَاءِ نَفْسٍ مُحْتَرَمَةٍ بِتَرْكِ تَعْظِيمِ الْمَيِّتِ فَالْإِحْيَاءُ أَوْلَى وَيَشُقُّ بَطْنَهَا مِنْ الْجَانِبِ الْأَيْ۔۔۔ وَعَنْ مُحَمَّدٍ رَجُلٌ ابْتَلَعَ دُرَّةً أَوْ دَنَانِيرَ لِآخَرَ فَمَاتَ الْمُبْتَلِعُ وَلَمْ يَتْرُكْ مَالًا فَعَلَيْهِ الْقِيمَةُ وَلَا يَشُقُّ بَطْنَهُ؛ لِأَنَّهُ لَا يَجُوزُ إبْطَالُ حُرْمَةِ الْمَيِّتِ لِأَجْلِ الْأَمْوَالِ.
البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (8 / 233)
5: لا یجوز دفن موتی المسلمین فی مقابر غیر المسلمین الا اذا لم یکن من ذالک بد ۔
بحوث فی قضایا فقہیہ معاصرہ (1/333 م: دار العلوم کراچی )
واللہ تعالی اعلم بالصواب

18 ذو القعدہ 1444ھ
8 جون 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں