السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
سوال:میت کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟
وعلیکم السلام و رحمة الله و بركاته۔
جواب :شریعت کا اصل حکم تو یہی ہے کہ جب کسی شخص کا انتقال ہو جائے تو اس کے کفن دفن میں جلدی کی جائے اور جہاں انتقال ہوا ہو اسی جگہ دفنادیا جائے۔
رہی بات میت کو دوسرے شہر منتقل کرنے کی تو اس میں علما کا اختلاف ہے۔ بعض نے اس کی اجازت دی ہے اور بعض منع فرماتے ہیں۔ درمیانہ راستہ یہ ہے کہ شدید ضرورت کے بغیر میت کو دوسری جگہ منتقل کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
————————-‐———————
حوالہ جات :
1…ویستحب فی القتیل والمیت دفنُہ فی المکان الذی مات فیہ فی مقابر أولئک القوم، وإن نقل قبل الدفن قدر میل أو میلین فلا بأس بہ، قیل: ہذا التقدیر من مُحَمّد یدل علی أن نقلہ من بلد إلی بلد مکروہ ؛لأن مقابر بعض البلدان ربما بلغت ہذہ المسافة، ففیہ ضرورة، ولا ضرورة فی النقل إلی بلد آخر، وقیل: یجوز ذلک مادون السفر لما روی أن سعد بن أبی وقاص مات فی قریة علی أربعة فراسخ من المدینة، فحمل علی أعناق الرجال إلیہا․ (غنیة المتملی،608)
2…(قولہ ولا بأس بنقلہ قبل دفنہ) قیل مطلقا، وقیل إلی ما دون مدة السفر، وقیدہ محمد بقدر میل أو میلین لأن مقابر البلد ربما بلغت ھذہ المسافة فیکرہ فیما زاد. قال فی النہر عن عقد الفرائد: وہو الظاہر (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار: 3/ 146)
3…أوصی بأن یصلی علیہ فلان أو یحمل بعد موتہ إلی بلد آخر أو یکفن فی ثوب کذا أو یطین قبرہ أو یضرب علی قبرہ قبة أو لمن یقرأ عند قبرہ شیئا معینا فہی باطلة سراجیة وسنحققہ.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین.)
4…”ويستحب في القتيل والميت دفنه في المكان الذي مات في مقابر أولئك القوم، وإن نقل قبل الدفن إلى قدر ميل أو ميلين فلا بأس به، كذا في الخلاصة. وكذا لو مات في غير بلده يستحب تركه فإن نقل إلى مصر آخر لا بأس به”۔(الفتاوى الهندية: 4/ 485)
5۔۔۔ دفن سے پہلے میت کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کے بارے میں فقہائے حنفیہ کا اختلاف ہے،بعض حضرات اسے جائز کہتے ہیں اور بعض مکروہ تحریمی بتاتے ہیں،لہذا شدید ضرورت کے بغیر ایسا کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ( فتاوی عثمانی 1/571)
6…مستحب اور افضل طریقہ یہی ہے کہ انسان کا جہاں انتقال ہوا وہیں اس کو دفن کیا جائے چاہے اس کا انتقال وطن میں ہوا ہو یا وطن سے باہر کسی اور جگہ ،دفن کرنے سے قبل منتقل کرنے میں فقہاء کا اختلاف ہے میل دو میل منتقل کرنا تو بالا تفاق جائز ہے ، دو میل سے زیادہ منتقل کرنے کو اکثر فقہاء نے مکروہ لکھا ہے ، اور صاحب نہر نے اسے بحوالہ (ظاہری روایت) کہا ہے۔ (شامی نے اسے نقل کیا ہے 1/840)
فتاوی رحیمیہ کی عبارت
7۔۔۔بعض فقہاء مادون السفراور بعض مطلقاً جواز کے قائل ہیں مگر افضل منتقل نہ کرنا ہے۔
منتقل کرنے سے تجہیز و تکفین میں تاخیر ہوتی ہے ، حالانکہ تجہیز و تکفین میں عجلت مطلوب ہے۔
بعد انتقال میت کے بدن میں تغیر پیدا ہوجاتا ہے ،کبھی تو لاش پھول پھوٹ جاتی ہے، بدبو پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے لوگ بھی دور دور رہتے ہیں اور میت کا جو احترام ہونا چاہئے وہ فوت ہوجاتا ہے ،اور اگر غسل دیئے بغیر منتقل کیا ہوتو پہنچنے تک کبھی میت نہ غسل کے قابل رہتی ہے نہ نماز جنازہ کے قابل، منتقل کرنا اپنے اختیار میں نہیں ہوتا، قانونی رکاوٹیں سامنے آتی ہیں اور تاخیر ہوجاتی ہے ۔
منتقل کرنے میں میت کی بے حرمتی کا بھی زیادہ امکان ہے ، ضرورت سے زیادہ میت کو حرکت ہوتی ہے اور بسا اوقات لاش کو برف پر رکھا جاتا ہے جو بجائے خود میت کے لئے تکلیف کا سبب ہے اور میت کو تکلیف پہنچانا ممنوع ہے ۔۔۔۔الخ
(فتاویٰ رحیمیہ، 7/ 130، کتاب الجنائز )
—-‐-‐—————————————-
فقط واللہ اعلم بالصواب
5/ نومبر/2021