مزینہ کی اولاد سے زانی کی اولاد کا نکاح

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب حامداومصلیاً

واضح  رہے  کہ زنا ایک گھناؤنا جرم ، حرام اور ناجائز عمل ہے جس کا ارتکاب  کرنے والا شخص بدترین گناہ  کا مرتکب ہوتا ہے، لہذا مذکورہ  شخص سےا گر واقعۃ ً یہ ناجائز عمل سرزرد ہوا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی اس حرکت پر شرمندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کےحضور گڑ گڑاکر معافی مانگے اور آئندہ کےلیے اس عمل سے سچی توبہ کرے ۔

تاہم اس ناجائز عمل کی وجہ سے ان دونوں کی اولاد کا آپس میں کوئی حرمت کا رشتہ قائم نہیں ہواہے، کیونکہ زانی اور مزنیہ  کی اولاد کا آپس میں نکاح جائز ہوتاہے، لہذ اصورت مسئولہ میں ان دونوں کی اولاد کا آپس میں نکاح  کروانا جائز ہے، بشرطیکہ حرمت کا کوئی اور رشتہ نہ ہو۔ (ماخذہ  امدادالاحکام:۲/۲۴۶)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 32)

ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها. اهـ.ومثله ما قدمناه قريبا عن القهستاني عن النظم وغيره. وقوله: ويحل إلخ أي كما يحل ذلك بالوطء الحلال

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 108)
ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 108)
(قوله ويحل إلخ) يعني إذا لم يكن الأصول منهما معا لما قال في منح الغفار، وكذا أخته أي وكذا أخت الرجل من الزنا وبنت أخيه وبنت أخته أو ابنه منه بأن زنى أبوه أو أخوه أو أخته أو ابنه فأولدوا بنتا فإنها تحرم على الأخ والعم والخال والجد، وصورته في هذه المسائل: أن يزني ببكر ويمسكها حتى تلد بنتا، كذا قاله الكمال في شرح الهداية.

واللہ تعالیٰ اعلم

محمد طلحہ ہاشم عفی عنہ

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

عربی حوالہ جات وپی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :

shorturl.at/cftBF

اپنا تبصرہ بھیجیں