ناقل (سفیراحمدسیــفی)
کیا فرماتے ہیں علماءکرام و مفتیان دین شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اس وقت انتخابی اتحاد کی صورت میں پاکستان بھر کی تمام دینی جماعتیں متحد ہو چکی ہیں اور وہ متحدہ مجلس عمل کی صورت میں ایک پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے ہیں اب سوالات یہ ہیں کہ
اس اتحاد میں اہلسنت والجماعت سے مسلکی اختلاف رکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں کیا ایسے لوگوں سے اتحاد جائز ہے یا نہیں اور شریعت میں اسکی کوئی مثال موجود ہے؟
2۔بعض سیٹوں پر دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو ٹکٹیں دی گئی ہیں کیا ان سیٹوں پر ان امیدواروں کو ووٹ دینا جائزہے؟
3۔موجودہ صورتحال میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار کو ووٹ دینے کا شرعی حکم کیا ہے؟ چاہے وہ امیدوار کسی بھی تنظیم سے ہو یعنی دیوبندی یا بریلوی یا شیعہ یا مودودی یا پھر اہل حدیث ہو نیز اگر کوئی شخص بالکل اپنا ووٹ استعمال نہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے وضاحت سے جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی شاہ احمدچغرزئی)
الجواب باسمہ تعالی
واضح رہے کہ اس وقت پوری دنیا میں عالم کفرمتحد ہو چکاہے مسلمان اوراسلام کےخلاف سازشیں کی جا رہی ہیں ـ دنیا کے کونے کونے میں مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور امت مسلمہ کو نیست ونابود کرنے کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانےکاآغازکیاجاچکاہے ایسےحالات میں امت مسلمہ کےلیےبھی ضروری ہے کہ وہ اپنی بقاء کی عظیم مقصد کی خاطرآپس کے اختلافات بھلا کر دشمن کے مقابلے کےلیے ایک صف میں کھڑے ہو کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کا کردار ادا کریں چنانچہ اس مقصد کے پیش نظر متحدہ مجلس عمل کی صورت میں دینی تنظیموں کا اتحاد وقت کی ضرورت کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کی سرخروئی کےلیے شاید کہ نوید بھی ثابت ہوـ
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ متحدہ مجلس عمل میں کچھ ایسے لوگ بھی شریک ہیں جن کا اہلسنت والجماعت کےساتھ مسلکی اختلافات ھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ اس وقت امت کا مقابلہ آپس میں نہیں بلکہ براہ راست عالم کفر کےساتھ ہے جسکے مقابلے میں مسلکی اختلافات ہیچ ہے ایسے چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بھلا کر پھر دشمن کا مقابلہ کرنا وقت کا تقاضہ ہے کیونکہ مسلکی اختلاف اور عالم کفر کےساتھ اختلاف یہ دونوں ابتلاء ہیں لیکن مسلکی اختلاف کا ابتلاء عالم کفر کےساتھ ابتلاء کی بنسبت کم اور قابل برداشت ہے اور شریعت کا یہ قاعدہ ہے
” اذابتلیت ببلیتین فاختر اھونھما”
یعنی جب دو بلاؤں میں ابتلاء ہو تو کمتر کو اختیار کیا جائے
اسکی نظیر نبی اکرمﷺ کے عمل سے بھی ثابت ہے تاریخ شاہد ہے کہ جب نبی کریمﷺ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو مدینہ میں نبی اکرمﷺ نے کفار مدینہ سے معاہدہ کیا کہ جب باہر سے کوئی دشمن حملہ آور ہو تو مسلمان اور کفار مل کر اس کا مقابلہ کریں گےاور یہ ایک سیاسی معاہدہ اور اتحاد تھا بلکہ یہاں پر تو اتحادیوں میں کفار ہی شامل تھے۔
ایسے ہی ہندوستان میں انگریز کے ناپاک قدموں کے جمانے کے بعدعلماءدیوبند میں سے جلیل القدر علماء نے جمعیت علماء ہند کے پلیٹ فارم سے حضرت شیخ العرب والعجم مولانا حسین احمدمدنی اور مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ رحمھم اللہ تعالی کی قیادت میں انگریز کو نکالنے کےلیے کانگریس جو کہ ابتداء میں ہندؤوں کی جماعت تھی اس سے اتحاد کیا اسی طرح مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کےلیے جو مجلس تشکیل دی گئی تھی اس میں تمام مسالک کی جماعتیں شریک تھیں اور کامیابی کے ساتھ ہمکنار ہوئیں اور قادیانی غیرمسلم اقلیت قرار دیے گئے تھے جس سے معلوم ہوا کہ جب بھی امت مسلمہ اپنے کسی مشترکہ دشمن کے مقابلے میں اپنے اپنے اختلافات کو بھلا کر اکھٹی ہوئی تو کامیابی ان کی مقدر بنی آج بھی ایسی ہی صورتحال ہے کہ پاکستان اور اہل پاکستان کی بقاء کا مسئلہ ھے کہ تمام کفریہ طاقتیں امت مسلمہ کے دین وایمان کے خلاف اکھٹی ہو چکی ہیں اور دنیا بھر میں مسلمانوں سے زندہ رہنے کا حق چھینا جا رہا ہے مذہبی روایات کو مٹانے کی کوششیں ہو رہی ہیں مسجدوں میں دشمنان اسلام جوتوں سمیت داخل ہوکر مساجد کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں جہاد کے مقدس نام کو بدنام کرنے کےلیے دھشت گردی کے نام سے جہاد کو متعارف کرایا جا رہا ھے ـ دینی تعلیمی اداروں کو ختم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں امت مسلمہ کو اغیار کی تہذیب اپنانے پر مجبور کیا جا رہا ہے ہر طرف سے سامراجی اور استبدادی قوتوں کے شکنجوں میں مسلمان قوم جکڑی جا رہی ہےـ ایسی صورتحال میں بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ دین اسلام اور پاکستان اور اہل پاکستان کے تحفظ کےلیے تمام مذہبی جماعتیں متحد ہوکر مشترکہ طور پر دشمن کا مقابلہ کریں۔
2۔اگرچہ بعض سیٹوں پر مسلکی مخالفین کو الیکشن لڑنے کےلیے ٹکٹیں دی گئی ہیں پھر بھی ان امیدواروں کو ووٹ دینے میں کوئی شرعی قباحت نہیں اسکی کئی وجوہ ہیں۔
(الف) یہ کہ ان مسلکی مخالفین کو ٹکٹیں دینا اتحاد برقرار رکھنے کا تقاضہ تھا۔
(ب) مسلکی مخالف امیدوار جب اسمبلی میں منتخب ہو کر جائے گا تو وہ اپنی رائے میں آزاد نہیں ہوگا بلکہ متحدہ مجلس عمل کے منشور کا پابند ہو کر فیصلہ اور رائے دینے کا پابند ہو گا جبکہ اس منشور میں اسلام کے خلاف کوئی دفعہ موجود نہیں بلکہ اسلام کے حق میں یہ منشور تیار کیا گیا ہے۔
(ج) ہمارے سیاسی اکابر نے ان سے معاہدہ کیا ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو ووٹ دینے کے پابند ہوں گے اس معاہدہ کی رو سے ان کو ووٹ دینا ضروری ہے کیونکہ معاہدہ کی پاسداری ازروئے شریعت ضروری ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ ” لادین لمن لا عھد له ”
(د) یہ کہ ہم جب ان مسلکی مخالفین میں سے کسی کو ووٹ دیتے ہیں یہ دراصل ووٹوں کا تبادلہ ہے جہاں پر اہلسنت والجماعت کے لوگ الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کے نامزد امیدوار ہیں وہاں پر ھمارے ہی مسلکی مخالفین انکو ووٹ دیں گے جبکہ نامزد امیدواروں کی اکثریت بھی متحدہ مجلس عمل میں اہلسنت والجماعت کی ھے تو فائدہ اہلسنت والجماعت کو ہو رہا ھے نہ کہ مخالفین کوـ
3۔واضح رہے کہ متحدہ مجلس عمل کا ہر امیدوار چاہے اسکا تعلق کسی بھی مسلک سے ہو اسکا حکم ایک ہی ہےـ کیونکہ کوئی بھی امیدوار کامیاب ہو کر اپنی رائے میں آزاد نہیں بلکہ وہ متحدہ مجلس عمل کے منشور کا پابند ہے۔
اسکے بعد یہ بات یاد رکھنے کے قابل ھے کہ ووٹ کی حیثیت محض ایک سیاسی کھیل نہیں ہے بلکہ ووٹ کی حیثیت ایک قسم کی گواہی اور شہادت کی ہے جو کسی امیدوار کے ذریعے کسی منشور کو دی جاتی ہےـ ازروئے شریعت اس گواہی کا عندالطلب یعنی مطالبے کے وقت پیش کرنا اور صحیح اہلیت رکھنے والے کے حق میں پیش کرنا لازم ہے اور اس میں کوتاہی کرنا گناہ کبیرہ ہے جیساکہ شہادت جسکی ایک صورت ووٹ بھی ہے کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد خداوندیہے کہ
“کونوا قوامین للہ شھداء بالقسط” (سورہ مائدہ
ارشاد باری تعالی ہے کہ
“کونوا قوامین بالقسط شھداء للہ ” (سورةالنساء آیت ۱۳۵)
“ولا تکمتموا الشھادة ومن یکتمھا فانه اٰثم قلبه” (سورہ بقرہ۲۸۳)
اس وقت جتنی تنظیمیں الیکشن 2002 میں حصہ لے رہی ہیں ان تمام کی ماضی وحال کو اوران کی انتخابی منشوروں کو سامنے رکھتے ہوئے ووٹ کے اہل اور مستحق مجلس عمل کے امیدوار ہی ہیں کیونکہ ان کے عزائم نیک اور صالح نظر آ رہے ہیں اور ان کا منشور اسلام کے نظام حکومت کے نافذ کرنے کا منشور ہے
فقط واللہ اعلم
کتبہ شاہ فیصل برکی
التخصص فی الفقہ الاسلامی
جامعةالعلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی
تصحیح کنندگان
مولانامفتی نظام الدین شامزئیؒ
مولانامفتی عبدالمجید دین پوریؒ
مولانامفتی محمد شفیق عارف
مولانا مفتی صالح محمد
مولانا مفتی محمد عبدالقادر
مولانا مفتی عبدالستار حامد