السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
سوال ۔ پوچھنا یہ تھا کہ جن بچوں کا نام مصطفیٰ رکھا جاتا ہے کیا وہ بچے تین چار سال تک بیمار رھتے ہیں مجھ سے کسی نے اس بارے میں سوال کیا کہ انہوں نے کسی عالمہ سے سنا ہے کہ یہ نام بھاری ہوتا ہے کیا یہ بات صحیح ہے؟
الجواب باسم ملھم الصواب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ ۔
“مصطفی” ہمارے نبی ﷺ کا ایک نام ہے اور اس کے معنی ہے مختار ، چنا ہوا خاص کیا ہوا بزرگ وبرتر۔
شریعت نے اچھے اور بامعنی نام , انبیاء علیھم السلام اور صحابہ کرام کے نام رکھنے کی ترغیب دی ہے لہذا مصطفی نام رکھنا درست وپسندیدہ ہے۔ نام کا انسانی شخصیت پر بھاری ہونا ایسی کوئی بات شرعا ثابت نہیں ۔
شرف المصطفى، 2/ 56:
“268- وسمّاه مصطفى فقال: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ الآية. قوله: «وسماه مصطفى» : الاصطفاء: الاختيار من الصفوة، وهي الخلاصة، ومنه قوله تعالى: وَإِنَّهُمْ عِنْدَنا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيارِ، وقال تعالى: إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ، قال السيوطي عند ذكر اسم المصطفى: هو من أشهر أسمائه صلى الله عليه وسلم، قال: روى مسلم حديث: إن الله اصطفى من ولد إبراهيم إسماعيل … الحديث، وفيه: واصطفاني من بني هاشم، اه. ولم يستدل على ذلك من القرآن.”
مستفاد: أو فہموا تخصیص النہي بزمانہ صلی اللہ علیہ وسلم، وہذا أقوی لأن بعض الصحابة سمی ابنہ محمدًا وکناہ أبا القاسم
وہو طلحة بن عبید اللہ، وقد جزم الطبراني أن النبي صلی اللہ عیلہ وسلم ہو الذي کنّاہ․․․․ ، قال عیاض: وبہ قال جمہور السلف والخلف وفقہاء الأمصار (فتح الباري کتاب الأدب، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم: سموا باسمي ولا تکنوا بکنیتي ۱۰: ۵۸۸)۔
واللہ تعالی اعلم