ہماری انفرادی زندگی میں، اجتماعی زندگی میں، ارد گرد ریت کی طرح بکھرے ہوئے ان گنت اداروں ، کارخانوں میں، تجارتی مراکز اور عدالتوں میں قدم قدم پر کئی ایسی چیزوں کا ارتکاب دکھائی دیتا ہے جو ایک سلجھے ہوئے معاشرے سے بالکل میل نہیں کھاتیں اور جو اسلام کی نظر میں گھناؤنے اور بدترین گناہوں کی صف میں شمار ہوتی ہیں یا کم از کم شریعت کی رو سے مکروہ اور ناپسندیدہ کہلاتی ہیں ۔ لیکن ہم دانستہ اور اکثر و بیشتر نادانستگی اور بے خیالی میں وہ کام کر گزرتے ہیں اور نامہ اعمال کو گناہوں کے بد نما دھبوں سے داغ دار کردیتے ہیں ۔ معاشرہ بے چینی ، اضطرا ب وانتشار، ڈپریشن اور بے روزگاری جیسے جان لیوا اور روح فرساں مسائل سے دہک رہا ہے ۔ بر سر عام سرزد ہونے والے یہ گناہ اور جرائم ان امراض ومصائب کے پیدا ہونے کا ایک لازمی سبب ہے ۔ جس دھرتی پر ایسے بھیانک جرائم کا ارتکاب ہواور پھر جرم کو جرم اور گناہ کو گناہ نہ بھی سمجھاجائے تو غیرت خداوندی جوش مارتی ہے اور قہر الٰہی کا کوڑا برس کر ہی رہتا ہے ۔ ہاں ! اگر رب کریم اپنے بے کراں دریائے رحمت سے عفو ودرگزر کا معاملہ فرمائے اور ہمارے ساتھ ہماری حیثیت کی بجائے اپنی حیثیتت اور اپنی شان رحیمانہ کے مطابق معاملہ فرمائے تو الگ بات ہے ۔
ان گناہوں میں سے ایک “آیات واحادیث اور مقدس ناموں کی بے ادبی ” ہے اس گناہ میں ہم کس طرح ملوث ہیں ملاحظہ کریں :
1۔ بعض اخبارات ، رسائل وجرائد اور ڈائجسٹوں میں قرآنی آیات کا عربی متن شائع کیاجاتا ہے ۔ یہ اخبارات ورسائل جب عوام کے پاس پہنچتے ہیں تو بری طرح پامال ہوتے ہیں۔کتنے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بلا وضوان آیات کو ہاتھ لگانے کے مرتکب ہوتے ہیں ، لوگ ان اخبارات وجرائد کو پڑھ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں یا دکان داروں کو بیچ دیتے ہیں ۔ دکان دار حضرات ان میں سودا سلف کی پیکنگ کرتے ہیں ۔ آیات واحادیث پر مشتمل یہ اخباری تراشے وہاں سفر کر کے گلی بازاروں ، گندگی اور کیچڑ میں لت پت ہوتے ہیں ۔ جوتے تلے روندے جاتے ہیں ۔ یاد رکھیے ! ایسے اخبارات ورسائل جن کے متعلق عام طور پر یہ معلوم ہو کہ وہ ردی میں ڈالے جائیں گے ان میں آیات یا احادیث کی عربی عبارت لکھنا جائز نہیں کیونکہ اگر ان اخبارات ورسائل کی بے ادبی ہوئی توا س کاگناہ جس طرح بے ادبی کرنے والوں ( یعنی اخبار کے قارئین وغیرہ) کو ہوگا ایسے ہی اس کے لکھنے والے کالم نگار اور چھاپنے اور جاری کرنے والے ادارے کو بھی ہوگا ۔ ( گناہ بے لذت : ص حضرت مفتی شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ )
متبادل راستے
اس گناہ سے بچنے کے یہ طریقے ہوسکتے ہیں :
1)قرآنی آیات یا حدیث کی عربی عبارت کی بجائے ان کا ترجمہ شائع کیاجائے ، کالم نویس حضرات کو یہ اطلاع کر دی جائے کہ عربی متن کی بجائے ان کا ترجمہ بحوالہ لکھ دیا کریں اگر چہ ترجمہ بھی لائق ادب و تعظیم ہے لیکن فقہی نقطہ نگاہ سے اس کی گنجائش دی گئی ہے ۔
2)اپنے ادارے سے جاری ہونے والے اخبار ، رسالہ یا ڈائجسٹ میں یہ اشتہار ضرور ہونا چاہیے : “قرآنی آیات ، احادیث نبویہ اور مقدس ناموں کا ادب واحترام کریں ! “ایسا کرنے سے ادارہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجائے گا۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی بے ادبی کرتا ہے تو اس کا بار ادارے پر نہیں ہوگا، بلکہ قارئین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کا احترام اور تقدس کو پامال کر نے سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں ۔
3)اخبارات ورسائل میں اگر قرآنی آیات واحادیث نہ بھی ہوں تو مقدس ناموں ضرور ہوتے ہیں۔ ہماری یہ حالت ہے کہ ہم انہیں دسترخوان کے طور پر استعمال کرتے ہیں ،ا ن میں سامان کی پیکنگ کرتے ہیں جو کہ بالکل نامناسب اور ناجائز ہے،ا لبتہ اگر ان مقفدس ناموں کو کاٹ کر الگ کردیاجائے یا کسی طرح مٹادیاجائے تو مذکورہ بالا مواقع میں استعمال کرسکتے ہیں ۔
قرآن شریف اور کتب حدیث وفقہ کے بوسیدہ اوراق کے ساتھ بھی ہمارا معاملہ کچھ اچھا نہیں ہے ۔ مساجد اور راستوں میں رکھے ہوئے ڈبوں میں ڈال کر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری ذمہ داری ختم ہوگئی حالانکہ اکثر دیکھاجاتا ہے کہ کھلے منہ ان کے ڈبوں وغیرہ سے مقدس اوراق کو ہوائیں اڑا کر لے جاتی ہیں، کھلے منہ ہونے کی وجہ سے ان میں ہر وقت جانور وغیرہ کی ناپاکی کا خطرہ بھی رہتا ہے ،ا ن اوراق مقدسہ کی بے ادبی سے بچنے کی یہ صورتیں ہوسکتی ہیں :
1)یہ چیزیں جب تک گھر میں ہوں انہیں پاک صاف اور بند جگہ تعظیم وادب سے رکھاجائے ۔ جب زیادہ جمع ہوجائیں تو انہیں :
(الف) دریا میں بہادیا جائے ۔
(ب)عمارت کی بنیادوں میں طاق بنا کر اس میں رکھ دیاجائے ۔
(2) قرآن وحدیث کے اوراق کو چھوڑ کر اخبارات وغیرہ کے اوراق کو جلایا بھی جاسکتا ہے ۔ جلانے سے ڈھیر سارےا خبارات معمولی سی راکھ بن جائیں گے ، پھر اسے پاک جفہ دفن کردیں ۔
ہر علاقے کے دین دار اور با اثر افراد کو چاہیے کہ وہ ایک ایسا ادارہ قائم کریں جہاں مقدس چیزوں کی حفاظت کا خیال رکھا جائے ۔عوام مقدس اوراق ان تک پہنچادیا کریں اور پھر یہ ادارہ یاا فراد اپنی ذمہ داری پر محض رضائے خداوندی اور مسلمانوں کو گناہوں سے بچانے کی نیت سے انھیں محفوظ اور مجوزہ جگہوں پر منتقل کردیں۔