سوال :محکمہ کسٹم کی جانب سے ضبط شدہ مال کی نیلامی اور اس کی خرید و فروخت کی شرعی حیثیت
جواب :الجواب حامدا و مصلیا
ان سوالات کے جواب سے قبل چند اصولی باتیں بطورِ تمہید سمجھنی ضروری ہیں ،جس کے بعد ان شاءاللہ نمبر وار جواب تحریرکیا جائے گا۔
پہلی بات یہ کہ بیرون ملک سے تجارت اور خریدو فروخت کرنا فی نفسہٖ اسلامی مملکت کے ہر شہری کاحق ہے،لیکن اگر سرکاری مصالح ،زرمبادلہ کی اہمیت ،بیرونی ممالک کے قوانین یا عام افراد میں سرمایہ کی کمی وغیرہ جیسے امور کی بناء پر اگر حکومت تجارت کو منظّم کرتے ہوئےبطریقِ عدل خاص خاص تاجروں کو درآمد کی اجازت دے کر ان پر ٹیکس عائد کردے تاکہ ان سے حاصل ہونے والا ٹیکس قومی خزانہ کے ذریعے عام شہریوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتو اس ٹیکس کے جواز کی گنجائش معلوم ہوتی ہے اور تاجروں کے لیے اس ٹیکس کی ادائیگی بھی شرعاً واجب ہوگی ،کیونکہ انہیں درآمد کی خصوصی اجازت دی گئی ہےجب کہ وہ اسلامی مملکت کے تمام شہریوں کا حق تھا ،اس لیے ان پر لازم ہوگا کہ عام شہریوں کی فلاح وبہبود کے لیے بطورِ خاص ٹیکس ادا کریں۔ (مگر حکومت پر لازم ہوگا کہ وہ یہ ٹیکس ان حقیقی مصارف میں ہی خرچ کرے جو شریعت اور قانون کے مطابق ہوں۔
دوسری بات یہ کہ اگراسلامی مملکت عام مسلمانوں کے مفاد کی خاطر کسی امرِ مباح پروقتی پابندی عائد کردے تو ملک کے باشندوں پر اس کی پابندی شرعاً بھی لازم ہوجاتی ہے اور اس کی خلاف ورزی گناہ اور جرم قرار پاتی ہے اور چونکہ یہ خلاف ورزی جرم اور معصیت ہوگی اس لیے حکومت اپنی صوابدید کے مطابق ایسے شخص کو سزا بھی دے سکتی ہے جس کی تفصیل منسلکہ عربی عبارات میں درج ہے۔
لہٰذا ان باتوں کے پیشِ نظر اگر حکومت درآمدی تجارت کے سلسلہ میں ٹیکس کی ایسی پابندی عائد کرے جو عوام الناس کی مصلحت کے مطابق ہو، اس کی شرح منصفانہ ہو اور اس کا طریقِ کار بھی مناسب ہوتو حکومت کی جانب سے ایسی پابندی عائد کرنا شرعاً جائز ہے اور اس حکم کی پابندی ملک کے ہر باشندہ پر لازم ہے ۔(دیکھیے عبارت نمبر۳،۲،۱)
اس تمہید کے بعد گذارش ہے کہ سوال سے تین صورتیں واضح ہیں :
(۱) پہلی صورت یہ کہ کسٹم افسران بلا وجہ کسی شخص کی کوئی چیز ضبط کرلیں یا اسے اس بات پر مجبور کردیں کہ وہ چیز چھوڑ کر چلا جائے ،جیسا کہ آ پ نے سوال میں ایک جگہ لکھا ہےکہ ’’یہی غیر ملکی اشیاء حسبِ ضرورت لانے کی اجازت بھی ہے مثلاًایک دو کمبل وغیرہ وغیرہ لیکن کچھ لوگوں کی قلیل اشیاء بھی کبھی کبھار ضبط کرلی جاتی ہیں‘‘تو ایسی صورت میں بلاوجہ ان قلیل اشیاء کو ضبط کرنا صریح ظلم ہوگا ،اس ظلم سے توبہ کرنا اور اصل مالک کو تلاش کرکے اس کی اشیاء اسے واپس پہنچانا شرعاً ضروری ہوگا اور جس شخص کو کسی متعین شیٔ یا اشیاء کے بارے میں اس صورتِ حال کا یقینی طور سے علم ہواس کےلیے ان اشیاء کو اصل مالک کی اجازت کے بغیر خریدنا یا استعمال کرنا بھی جائز نہ ہوگا۔
(۲) دوسری صورت یہ کہ اسمگلر اپنا سامان چھوڑ کر بھاگ جائے اور سامان کا مالک نا معلوم ہو اور کوئی شخص اس سامان کی ملکیت کا دعویٰ بھی نہ کرے تو اس صورت میں لقطہ کا حکم جاری ہوگا ،یعنی اس سامان کے مالکوں کو تلاش کیا جائے اگر وہ مل جائیں اور قانونی طور پر ٹیکس دینے کے لیے تیار ہوں تو انہیں ان کا مال قانونی کاروائی کے بعدواپس کردیا جائے ۔اور اگر اس سامان کے مالک اپنا مال لینے کے لیے نہ آئیں اور ان سے رابطہ بھی ممکن نہ ہو اور اعلان کے باوجود اتنی معتدبہٖ مدّت بھی گذر جائے کہ ظنِ غالب کے مطابق مالک کی واپسی اب بظاہر ممکن نہ ہو تو یہ سامان لقطہ ہےاور چونکہ یہ لقطہ حکومت کے قبضہ میں ہے اس لیے یہ اشیاء بیچ کر اس کی رقم لاوارث اور محتاج فقراء اور مساکین پر صرف کی جائے کیونکہ لقطہ کے اصل مستحق یہی مذکورہ افراد ہیں۔
لیکن اگر حکومت ان اشیاء کو فروخت کرکےان کی رقم سرکاری خزانہ میں جمع کردے اور مصالح مسلمین پر صرف کردے یا یہ اشیاء قانون کے مطابق اپنے کسی ملازم کو مالکانہ طور پربطورِ انعام دیدے یا ان اشیاء کو فروخت کرکے ان کی رقم قانون کے مطابق ملازمین میں تقسیم کردے تو بھی شرعاً ان ملازمین کے لیے یہ اشیاء لینا یا ان کی رقم کا لینا جائز ہوگا،ان ملازمین کے لیے ملکیت ثابت ہوجائے گی اور انہیں یہ اشیاء استعمال کرنے اور آگے فروخت کرنے کی بھی شرعاً اجازت ہوگی ۔
اس کی فقہی وجہ یہ ہے کہ احناف کے نزدیک اگرچہ لقطہ کا تصدق واجب ہے مگر یہ صدقاتِ واجبہ میں سے نہیں بلکہ صدقاتِ نافلہ میں سے ہے جن کے مصارف میں عموم ہے ،لہٰذا حکمِ حاکم کی وجہ سے غنی کے لیے بھی اس کا استعمال جائز ہوجائے گا، جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک تو لقطہ کا استعمال (مدتِ تعریف گذرنے کے بعد)غنی کے لیے بلااذن حاکم بھی جائز ہے۔(دیکھیے عبارت نمبر۵تا ۹)
(۳) تیسری صورت یہ کہ حکومت کا عملہ اس غیر قانونی سامان کو ایئر پورٹ ،بندرگاہ وغیرہ سے مالک کی موجودگی میں قانون کے مطابق ضبط کرلے یا تو اس بناء پر کہ حکومت نے اس سامان کے ملک میں لانے پر پابندی لگا رکھی تھی یا اس بناء پر کہ مالک حکومت کا تجویزکردہ ٹیکس ادا کرنے پر راضی نہیں تھا ۔ ان دونوں صورتوں میں حکومت کا یہ مال ضبط کرنا ’’تعزیر بالمال ‘‘میں داخل ہوگا جو اصل مذہبِ حنفی کے مطابق جائز نہیں،لیکن امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی ایک روایت،بعض فقہاء حنفیہ اورفقہاء مالکیہ کی آراء اورامام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہم اللہ کے مذہب کے مطابق اس کی گنجائش ہے(ديكھيے عبارت نمبر۱۰تا۳۴)، جس سے اس مسئلہ کا فی الجملہ مجتہد فیہ ہونا واضح ہے،اور اگرکوئی قاضیٔ شرع اسلامی مملکت کی مصلحت کے مطابق امرِ مجتہد فیہ میں خلافِ مذہب فیصلہ کردے تو وہ چونکہ قضاءً نافذ ہوجاتاہے(دیکھیے عبارت نمبر ۳۵اور۳۶)،اس لیے یہاں بھی اگرحکومت انتظامی مصلحت کے پیشِ نظر تعزیر بالمال کا حکم نافذ کردے(جب کہ اس وقت عملاً صورتِ حال یہی ہے ) تویہ تعزیر بالمال قضاءً بہرحال نافذ ہوجائی گی اور وہ ضبط شدہ مال بیت المال کی ملکیت میں داخل ہوجائے گا جسے حکومت اپنی صوابدید کے مطابق درست مصارف میں خرچ کرسکتی ہے۔
ان تمہیدات کے بعد اب آپ کے سوالوں کا جواب نمبر وار درجِ ذیل ہے:
(۴،۳،۱) ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ ان امور میں ان اموال کا خرچ کرنا بھی جائز ہے اور ملازمین کو لینا بھی جائز ہے،بشرطیکہ ضابطہ کی قانونی کاروائی کے بعد ہو جو خیانت اور خرد برد سے پاک ہو ۔
(۲) ایک اسلامی ملک کے جائز قوانین کی پابندی کرواتے ہوئے اگر کوئی شخص ڈاکوؤں یا باغیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے مارا جائے تو وہ شہید شمار ہوگا ۔(ديكھيے عبارت نمبر۳۷ اور ۳۸ )
(۵) حکومت کی طرف سے بااختیار مجاز افسران کا ملازمین میں سے کسی کو ضبط شدہ مال محکمہ کے ضابطہ کے مطابق بطور انعام دینا جائز ہے اور جس ملازم کو یہ اشیاء ملیں اس کے لئے یہ حلال ہیں ۔
(۶) افسر مجاز کی(ضابطہ کے مطابق)قانونی کاروائی کےبغیر کسی ملازم کا ان اشیاء کو لے لینا شرعاً جائز نہیں(یہ چوری اور غصب میں داخل ہے)،البتہ ضابطہ میں اگر اشیاء کے عارضی استعمال کی اجازت ہو تو ضابطہ کی حد تک اسے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔
(۷)۔۔۔اس تنخواہ کا لینا جائز ہےاور یہ ملازمت صحیح ہے ،البتہ ملازم صرف وہ چیز لے سکتا ہے جس کی ضابطہ میں اجازت ہو ۔
(۸) ضبط شدہ جائے نماز یا صف پر نماز اس وقت جائز ہے جب کہ قانونی ضابطہ کے مطابق اسے استعمال کرنے کی ملازمین کو اجازت ہو ،یہی حکم کھانے پینے کی اشیاء کا ہے ۔
(۹) جو سامان خریدا جاچکا ہے اگر وہ حکومت کی اجازت سے قانونی کاروائی کے بعد خریدا گیا ہو تو اس کا استعمال اور اس میں تمام مالکانہ تصرفات جائز ہیں ۔اور اگر غیر قانونی طور پرحکومت کی قانونی اجازت کے بغیریہ سامان حاصل کیا گیا ہو تو یہ سامان واپس کرنا ورنہ اس کی رقم حکومت کے متعلقہ محکمہ کے خزانہ میں جمع کرانا ضروری ہے ۔
(۱۲،۱۱،۱۰) جواب نمبر (۹)میں ذکر کردہ شرط کے مطابق ان جگہوں میں بھی اس سامان کا استعمال شرعاً جائز ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب