پہلی قسط
تحریر : محمد رضوان سعید نعمانی
محبت کے معنی الفت ،پیار ، دوستی ، عشق اور لگن کے ہیں ۔ یہ سب محبت کے مختلف روپ ہیں ۔ محبت جانداروں میں ایک جذباتی کیفیت کانام ہے جومحبت کرنے والوں کو ایک جگہ لاکھڑاکرتی ہے۔اس کی آگ سر تا پیر محسوس ہوتی ہے ۔ محبت کے گرفتار اپنے حواس کھو بیٹھتے ہیں ، ان کا رہن سہن اور نظام زندگی متاثر ہوجاتاہے۔ایک حدیث شریف میں آپ ﷺ نے فرمایا : ” آدمی کا انجام اسی کے ساتھ ہوگاجس سے وہ محبت کرتاہے”۔
محبت ایک ایسا بحر ہے جس کا کوئی کنارا نہیں ، ایک دو صفحات میں اسے قلمبند کرنادریا کو ، کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے، تاہم اللہ تعالی کا نام لیتے ہوئے چند سطریں نذر قارئین ہیں۔
محبت اورہمارا معاشرہ :
آجکل ہمارے سماج ،خصوصا نوجوان طبقہ میں محبت کا لفظ جنسی ہیجان کے معانی میں لیا جاتاہے ۔ یہ لفظ ان میں غلط وناجائز تعلقات کے لیے بطور رمز استعمال ہونے لگاہے۔ کسی سے محبت کااظہار محض اپنی ذاتی اغراض وخواہشات نفس کی تکمیل کے لیے ہوتا ہے۔اپنا مطلب نکلتے ہی کل کے دوست آج دشمن بن جاتے ہیں۔ سن شعور کو پہنچتے ہی سب کے راستے جداجدا ہوجاتے ہیں ، کوئی کسی کا نہیں رہتا۔اور اس فساد کی جڑ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی حیا سوز فلمیں ، ڈرامے اور ان کے گھناؤنے کردار ہیں،صرف یہی نہیں موجودہ دورمیں انڈورائڈ موبائل نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کردار اداکرتے ہوئے ہر نوجوان کی جیب میں سینما کا سامان مہیا کردیا ہے۔ ان آلات نے محبت جیسے عظیم رشتے کو بگاڑ کررکھدیا ہماری نوجوان نسل کے دماغ سے محبت کے مقدس اسلامی مفہوم کی بجائے یورپ کے مادر پدر آزاد معاشرے کے یہاں محبت کےغلط معانی کو پیوست کردیاہے۔جسے بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ سے تعبیر کیا جاتاہے یہ تعلقات جنسی تسکین پوری ہوتے ہی فراموش کردیےجاتےہیں۔
اس جنسی انار کی کا نتیجہ یہ ہواکہ جو نوجوان گھر کے اچھے ماحول یا کسی اچھی سوسائٹی سے منسلک ہونے کی وجہ سے اچھے اخلاق وکردار کے مالک ہیں اور ان میں شرم و حیا باقی ہےتو وہ لفظ محبت کو گالی اور بے ہودہ چیز خیال کرنے لگے ہیں۔
انجام :
بری صحبت کا انجام دنیا میں برا ہی ہوتاہے ، قطع نظر اس کے کہ شرعا یہ حرام ہے یا اس پر فلاں فلاں وعید ہے۔ ذیل میں یورپ ہی کی تحقیق کے مطابق(جو اس طرح کی روح فرسا سرگرمیوں کا علمبردار ہے ) چند نقصانات شمار کرائے جاتےہیں :
- نیو یار ک آئن اسٹائن میڈیکل کالج کے سائنسدانوں کی رپورٹ کے مطابق نامحرم دوشیزاؤں یا ہم جنس سے محبت میں گرفتار شخص کے دماغ کا وہ نظام سرگرم ہوجاتاہے جو “کوکین” (ایک نشہ آور دوا)لینے سے ہوتاہے۔ ایسا شخص نشہ کا مریض بن جاتاہے جب تک وہ اپنی محبوبہ سے مل نہ لے اسے دیکھ نہ لے ، اس سے جنسی تسکین نہ کرلے تب تک وہ بے چینی کی کیفیت میں رہتاہے۔
- ایسا شخص قوت ارادی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ، اس کے قوی ٰمضمحل ہوجاتے ہیں اوروہ تذبذب کا شکار رہتاہے۔کسی کام کو اچھے طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بری طرح ناکام رہتاہے۔اسے اپنی ذات میں اپنا محبوب دکھائی دے رہا ہوتا ہےوہ زندگی کے اتار چڑھاؤ اپنے لیے نہیں غیر کے لیے طے کررہاہوتا ہے۔
- ایسی محبت کے اسیر خود غرضی ، عداوت اور دشمنی جیسی مذموم صفات کے حامل ہوتےہیں ، کیونکہ اس کیفیت میں ان کے وہ دماغی ہارمونز سرگرم ہوتے ہیں جن کا تعلق جارحیت وخود غرضی سے ہے ۔ وہ اپنی محبوبہ یا محبوب کے ساتھ کسی کے ملنے جلنے کو گوارا نہیں کرتے ، یہ کیفیت ان کوقتل جیسے گھناؤنے جرم تک پہنچادیتی ہے ۔ان نقصانات کا دائرہ کار ان لوگوں تک محدود ہے جو براہ راست ناجائز محبت وتعلقات کاشکار ہیں۔
ذیل میں شیخ الاسلام حضرت مولانامفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے “اصلاحی خطبات “سے اختصار کے ساتھ اپنے الفاظ میں کچھ ایسے نقصانات ذکر کیے جاتے ہیں جن سے یورپ کامعاشرہ بری طرح متاثر ہے ، جن سے چھٹکارے کی کوئی راہ ان کے پاس نہیں ۔
- ناجائز طریقہ سے جنسی خواہش کی تسکین نے یورپ کو کتوں ،گدھوں اور بلیوں کی صف میں لاکھڑاکیا ہے ، بعض معاشروں کے ریکارڈ پر یہ بات موجود ہےکہ وہاں کی ستر اسی فیصد آبادی حرام کی اولاد ہیں ۔
- “خاندانی نظام” نام کی کوئی چیز ان میں باقی نہیں رہی جس کے نتیجے میں مقدس رشتوں (باپ ، بیٹا،ماں ،بیٹی ،بھائی ،بہن)کے تصورات ختم ہوتے جارہے ہیں ۔
- ناجائز محبت سے جنسی تسکین پوری کرنے والا کبھی بھی سیر نہیں ہوتا وہ کسی حد پر رکتانہیں ، اس کی پیاس اور بھوک نہیں مٹتی اس کی مثال پیاس کے مریض کی سی ہےکہ وہ ہزار مرتبہ بھی پانی پی لے اور مٹکے کے مٹکے اپنے پیٹ میں داخل کرلےپھر بھی اس کی پیاس نہیں بجھتی۔
- آج مغربی معاشرےمیں سستی ترین چیز صنف نازک اور اس کی آبرو ہے جہاں قدم قدم پر اس سے تسکین حاصل کرنے کے دروازے چوپٹ کھلے ہوئے ہیں ۔
- ایسے معاشروں میں زنا بالجبر عام ہے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ رضامندی سے جنسی خواہش کی تسکین کرلینے کے بعد بھی نفس کو قرارنہیں آیا تو خیال پیدا ہواکہ زبردستی کرنے میں زیادہ لذت ہے۔
- اس پر ہی بس نہیں اب تو مغربی معاشرےمیں اپنی گر ل فرنڈ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد اسی وقت قتل کردینا بھی جنسی تسکین کا ایک حصہ بن گیاہے۔ (اصلاحی خطبات : 15/155-157)
محبت کی وجوہات :
سچی اورشرعی دائرہ کار میں محبت ہو یا شرعی دائرہ کار سے ہٹ کے اس کے مختلف اسباب ہیں ،گویا بالذات یا بلاواسطہ کسی سے محبت نہیں ہوتی۔ ذیل میں چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے :
(1) حد سے زیادہ کسی کی طرف توجہ دینا۔ جیسے” حضرت یعقوب علیہ السلام “کو اپنے چھوٹے بیٹے “حضرت بنیامین علیہ السلام ” سے دوسرے بیٹوں کی بہ نسبت اس لیے زیادہ محبت تھی کہ بچپن میں حضرت بنیامین علیہ السلام کی والدہ کا انتقال ہوگیا ، وہ کم سنی میں والدہ کی محبت سے محروم ہوگئے تھے۔ باپ کو ان کی طرف توجہ دینا پڑی ، ماں کی طرح ان کی دیکھ بھال کرنی پڑی تو محبت بھی اسی درجہ دل میں گھر کر گئی جیسے ایک ماں کو اپنے بچہ سے ہوتی ہے۔
(2) ہونہار لائق قابل اور غیر معمولی صفات کے حامل شخص سے بھی بسااوقات انسان کو محبت ہوجاتی ہے۔ جیسے”حضرت یعقوب علیہ السلام ” کا اپنے چہیتے بیٹے “حضرت یوسف علیہ السلام ” سےباقی اولاد سے زیادہ محبت کرنا ،ان کی لیاقت اور غیر معمولی صفات کے حامل ہونے کی وجہ سے تھا جس کا اندازہ آپ ؑ کو ان کے خواب والے واقعہ اور دیگر قرائن سے ہواتھا۔
ایسے ہی “حضرت داؤد علیہ السلام ” کا اپنے انیس بیٹوں میں سے سب سے چھوٹے بیٹے “حضرت سلیمان علیہ السلام” سے پے پناہ محبت کرنا ۔ اللہ پاک نے ان کو وافر ذہانت وعقل سے نوازا تھا۔یہی نہیں بلکہ تیرہ برس کی عمر میں انہیں اپنے والد کی نیابت بھی نصیب ہوگئی تھی۔ایسے ہی کسی استاذ کا کسی ہونہار وقابل شاگرد کو دوسروں پر ترجیح دینا اور اس سے اظہار محبت کرنابے جا نہیں ہوتا ۔
(3) کسی کی اچھے طریقے سے خدمت و خاطر داری کرنا خادم کو مخدوم کا محبوب بنادیتا ہے۔ جیسے “حضرت یوسف علیہ السلام” اوران کے چھوٹے بھائی “حضرت بنیامین علیہ السلام ” کا اپنے والد محترم” حضرت یعقوب علیہ السلام ” کی خدمت بجالانا ، کہ بڑے بھائی تو اکثر باہر کے کام کاج میں مصروف رہتے تھے ۔ اگرچہ وہ چھوٹے تھےعین ممکن ہے خدمت اچھی طرح نہ کر سکتے ہوں، تاہم بعض اوقات کسی کی منشاء کے مطابق معمولی سا کام بھی بڑی قدرو قیمت کا حامل ہوتاہے، اس کے برعکس بڑے سے بڑا کام اگر بد دلی سے کیا جائے تو اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہوتی ۔(تفسیر معالم العرفان :10/606-607، سورۃ یوسف ،الآیۃ : 10،ناشر:مکتبہ دروس القرآن )
(4) ایک دوسرے کو ہدیہ دینا بھی محبت کے اسباب میں سے ہے۔جیسے ایک حدیث میں ہے : ” تهادوا تحابوا”.
(5) کسی کے ظاہری حسن وجمال اورخوبصورت شکل وصورت پر فریفتہ ہوکر اس کاگرویدہ ہوجانا ، اور اس سے محبت کے بلند بانگ دعوے کرنا۔
(6) حدیث شریف کا مفہوم ہے :” عالم ارواح میں روحوں کے مختلف گروہ ہیں ،جن ارواح کا وہاں آپس تعارف ہوا دنیا میں ان میں محبت وانس ہوجاتاہے، اور جن ارواح کا آپس میں تعارف نہ ہوسکا تو دنیا میں انکے مابین اجنبیت پائی جاتی ہے”۔(صحیح البخاری : 4/134، رقم : 3336،باب الارواح جنود مجندۃ ، ط : دار طوق النجاۃ)
اس بات کا مشاہدہ عام ہے کہ بسا اوقات دوبھائیوں کی آپس میں نہیں بن پڑتی ، وہ ایک دوسرے کو اپنا جانی دشمن تصور کرتے ہیں ، لیکن دواجنبی شخص بسااوقات سفر میں ملتے ہیں تو ایسے شیر وشکر ہوجاتے ہیں گویا ان میں صدیوں سے دوستی ہے۔
(7) اخلاق وعادات ، صفات یا شکل وصورت میں اپنے یا اپنے قریبی سے مشابہت ومماثلت کی وجہ سے کسی کی محبت میں گرفتار ہونا۔
(8) آپس میں سلام کرنا ۔ صحیح حدیث میں آپ ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے ” آپس میں سلام کو عام کرو کہ اس سےتم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے”۔
(9) اپنے محسن کے احسانات کے بار تلے دب کر اس سے محبت کا اظہار کرنا۔
(10) نفع اور نقصان : کسی سے نفع حاصل ہو یا نفع حاصل ہونے کی امید ہوتو اس سے محبت ہوجاتی ہے ۔اور کسی سے اس لیے بھی محبت کی جاتی ہے کہ اس کے بغیر نقصان ہوتا ہے۔
(11) ضروریات زندگی کی تکمیل اگر کسی سے ہوتی ہو تو اس سے بھی محبت ہوجاتی ہے۔ جیسے : مال ومتاع ، بیوی بچے ، گھر بار ان سب سے انسان اس لیے محبت کرتا ہے کہ یہ چیزیں اس کی زندگی کی ضروریات کالازمی حصہ ہیں ۔
(12) صداقت اوراچھے اخلاق سے متاثر ہوکر کسی محبت کا دعوی کرنا ۔جیسے حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا نے حضور ﷺ سے کہا : ” میں نے آپ کی صداقت اور اچھے اخلاق کی وجہ سے آپ کو پسند کیاہے۔
محبت دین اسلام کی نظر میں :
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں محبت کرنا، یا ہوجانا یاکسی سے کم کسی سے زیادہ ہونا بذات خود کوئی برا کام نہیں ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے اسےانسانی فطرت میں ودیعت کیا ہے ۔ دین اسلام میں اسے اور اس کے اسباب ،وسائل کو عام کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔یہ کہنا بے جا نہیں کہ دین اسلام سراپا محبت وسلامتی ہے۔ دراصل محبت سے مقصود اسلام کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق معاشرے کے ہر فرد کو اس کے مرتبہ کے بقدر درجہ دینا ہے،جو کسی بھی اچھے معاشرے کے وجود کے لیے ناگزیر ہے۔
مثلا : والدین کے حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے ان کو ان کے مرتبہ کی بقدر اللہ اور رسول کے بعد درجہ دیتے ہوئے ان سے محبت کا اظہار کرنے سے والدین کے دل میں اولاد کی محبت میں اضافہ ہوگا۔ اور اولاد کے حقوق پورے کرنے سے اولاد کے یہاں والدین کی قدر و منزلت میں چار چاند لگ جائیں گے۔ایسا ہی معاملہ چھوٹے بڑے ،بہن بھائیوں ، استاذ شاگرد اورخادم ومخدوم کا ہے۔غرض معاشرے کے تمام افراد سے ان کے مرتبہ کے مطابق سلوک کرنے اور انہیں اپنائیت دینے سے ایک اچھا معاشرہ تشکیل پاسکتاہے۔ذیل میں قرآن وحدیث سے محبت کے بارے چندمعروضات پیش کی جاتی ہیں :
اللہ پاک نے ہر انسان کی فطرت میں محبت کاجذبہ موجزن کیا ہے پھر اسے اختیار دیاہے۔ چاہے تو اس فطری جذبے کوصحیح مصرف میں لاکر ثواب کا مستحق ٹھہرے،چاہے اسے غلط استعمال کرکے اپنی دینا اورآخرت کو برباد کرے۔ محبت کی اہمیت کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ اسے قرآن وحدیث کی روشنی میں ایمان کامل کی اولین شرائط میں شامل کیا گیا ہے۔اس کے بغیر ایمان ناقص رہتاہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ : ” تم جنت میں داخل نہیں ہوگے یہاں تک کہ ایمان لے آؤ ،اور تم کامل مؤمن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ آپس میں محبت کرو”( مسند احمد : 3/43/1430 ، ناشر : مؤسسۃ الرسالۃ)
دوسری حدیث میں حضور پر نور ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ :”اللہ کی رضا کے لیے کسی سے محبت کرنا ، اور انہی کی رضا کے لیے کسی سے بغض کرنا ایمان کا مضبوط ترین کڑاہے”۔ (مسند أحمد : 30/488/18524 ، ط : مؤسسۃ الرسالۃ)
ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادکامفہوم ہے کہ :”بغیر کسی رشتہ داری ونسب کے اللہ کی رضا کے لیے محبت کرنے والوں کے چہرے روز قیامت نورانی ہوں گے ، وہ نور کے منبروں پر ہوں گے ، انبیاء اور صالحین ان پر رشک کریں گے ، جب لوگ خوف زدہ اور غمگین ہوں گے تو ان پر خوف کے آثار نہ ہوں گے”۔(موارد الظمآن : 8/185 ، رقم : 2508 ، ط : دار الثقافۃ العربيۃ)
ایک حدیث میں ہے کہ : ” ایک مرتبہ کوئی صحابی رضی اللہ تعالی عنہ آپ ﷺ کی خدمت میں تھے ، اتنے میں ایک آدمی ان کے پاس سے گذرا۔صحابی نے عرض کی:اے اللہ کے رسول ﷺ:” میں اس آدمی سے محبت کرتاہوں “۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا :”کیا آپ نے اسے اس بارے میں بتلایا ہے؟ صحابی نے کہا: ” نہیں ” ۔آپ ﷺ نے فرمایا ، اسے بتلاؤ”۔اس صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے جاکر انہیں بتلایا کہ میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتاہوں ۔ انہوں جواب میں دعا دیتے ہوئے کہا : ” جس ذات کی رضاکے لیے آپ نے مجھ سے محبت کی ہے وہ ذات آپ سے محبت کرے”۔(سنن ابی داود : 7/445/512، ناشر : دار الرسالۃ العالمیۃ )
قرآن کریم میں اللہ پاک نے کئی آیات کے اندر اس مضمون کو ذکر کیا ہے۔چند آیات کے مفہوم پر اکتفاء کیا جاتاہے۔ ایک آیت کامفہوم ہے :” بے شک تمہارادوست اللہ اس کارسول اور مؤمنین ہیں “(سورۃ المائدۃ : 55)،دوسری آیت میں ہے :” مؤمنین ایک دوسرے کے ولی اور دوست ہیں “(التوبۃ 71)
(جاری ہے )