حالیہ دنوں لندن میں مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم نے علماء اور دیگر شرکاء سے نہایت پرمغز خطاب کیا. جس کا خلاصہ آج میں درج کرنے کی جسارت کر رہا ہوں. گو یہ گفتگو کے من و عن الفاظ نہیں بلکہ مفہوم کی صورت میں ہوگا مگر قاری اطمینان رکھے کہ راقم بات کو پوری دیانت داری سے پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے. درج ذیل نکات گفتگو کا عکس ابتداء سے آخر تک بالترتیب پیش کریں گے. ان شاء للہ
١. مفتی صاحب نے آغاز کچھ یوں کیا کہ جب بھی علماء سے خطاب کا موقع ملتا ہے تو دو طرح کی متضاد کیفیات طبیعت پر وارد ہوتی ہیں. پہلی کیفیت خوشی کی ہوتی ہے کہ میں اپنی برادری یعنی اپنے بھائیوں اور اکابر کے درمیان موجود ہوں. جب کہ دوسری کیفیت یہ ہوتی ہے کہ میں ادنیٰ سا طالبعلم کہاں اور علماء کا درجہ کہاں؟
میری کیا حیثیت جو علماء کو تجاویز دوں.
پھر یہ سوچ کر تسلی دے لیتا ہوں کہ جسطرح مدارس میں استاد سبق پڑھا کر کسی بھی ایک طالبعلم کو کھڑا کرکے سبق کی تکرار کرنے کو کہہ دیتا ہے. ٹھیک اسی طرح میں بھی تکرار کروں گا. اللہ پاک صحیح تکرار کی توفیق دیں آمین.
وہی بیان کروں گا جو اکابر سے سنا ہے. اصل میں کچھ بھی ذاتی نہیں مگر ممکن ہے اسمیں کچھ تھوڑا سا ذاتی استنباط بھی ہو. پھر اپنے والد مفتی محمد شفیع کا قول سنایا کہ جس کے مطابق اس طرح کا اختلاف یا استنباط بھی دراصل استاد اور اکابر ہی کا ‘معنوی فیض’ ہوتا ہے.
.
٢. مفتی صاحب نے کہا کہ آج پورا عالم اسلام جس طرح کے مسائل سے دوچار ہے وہ پہلے کبھی نہ تھے مگر عجیب بات یہ ہے کہ آج جو مسلمانوں کو وسائل حاصل ہیں اور جتنی ان کی آبادی ہے وہ بھی پہلے کبھی نہ تھی. ایک حدیث سنائی جس میں رسول ص نے بتایا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب غیر مسلم تم پر ایسے ہاتھ ماریں گے جیسے دعوت میں دسترخوان پر بیٹھے لوگ کیا کرتے ہیں. صحابہ رض نے پوچھا کہ کیا ہماری تعداد اس وقت کم ہوگی؟ تو جواب دیا کہ تعداد تو بہت ہوگی لیکن تم ایسے ہوگے جیسے سیلاب میں بہتے ہوئے بیشمار تنکے.
.
٣. مفتی صاحب نے کہا کہ آج اکثر علماء اس زوال کو زیر گفتگو لاکر اسے دشمن کی سازشوں کا شاخسانہ کہتے ہیں. مگر سوال یہ ہے کہ آپ دشمن سے کیا توقع رکھتے ہیں ؟ وہ آپ سے محبت کرے یا آپ کو پھولوں کے ہار پہنائے؟ دشمن کا تو کام ہی دشمنی ہے اس کا کیا شکوہ؟
اصل بات یہ ہے کہ کمی ہم میں ہے ہمارے اندر خرابی ہے تب ہی تو دشمن فائدہ اٹھا لیتا ہے. مسلمان ہمیشہ اسی وقت مغلوب ہوئے ہیں جب ان کے اپنے اندر خرابی پیدا ہوئی.
٤. مفتی صاحب نے کہا کہ ان کے والد مفتی محمد شفیع جب چھوٹے تھے تو اپنے استاد مولانا محمود الحسن کے پاس اس وقت بھی بیٹھے رہتے جب دیگر بچے کھیل میں لگے ہوتے. جب مولانا مالٹا کی اسیری سے رہا ہو کر واپس آئے تو ایسی ہی ایک نشست میں انہوں نے اپنے مخاطبین سے کہا کہ مالٹا کی تنہائیوں میں ہم نے دو سبق سیکھے یعنی زوال امت کے دو اسباب جانے. سب ہمہ تن گوش ہو کر سننے لگے کہ مولانا اسی سال کی عمر میں آج اپنی زندگی کا نچوڑ پیش کرنے جارہے ہیں. مولانا نے کہا کہ زوال امت کے دو اسباب ہیں. پہلا یہ کہ مسلمانوں نے قران کریم کو چھوڑ دیا ہے اور دوسرا ہے ہے فرقوں مسالک کا باہمی افتراق، جھگڑا اور تنازع. ساتھ ہی یہ کہا کہ اب باقی زندگی ان ہی دو کاموں میں وقف کروں گا یعنی قران کی جانب بلانا اور اتحاد امت.
.
٥. مفتی صاحب نے کہا کہ اختلاف کی بہت سے اقسام و درجات ہیں. جیسے کفر و اسلام کا اختلاف فسق و ایمان کا اختلاف اجتہاد کا اختلاف مسالک کا اختلاف مزاج کا اختلاف وغیرہ ہر اختلاف کا حکم الگ ہے مگر آج بدقسمتی سے ہم ہر اختلاف کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے لگے ہیں. جس کا منفی نتیجہ سامنے ہے.
.
٦. اسلام و کفر کا اختلاف دراصل حق و باطل کا اختلاف ہے اور سب سے زیادہ سخت ہے مگر اس کے باوجود اس درجہ پر بھی اختلاف کا مطلب نفرت اور لڑائی نہیں ہے. نفرت کفر سے ہے کافر سے نہیں، فسق سے ہے فاسق سے نہیں. کفر میں مبتلا شخص آپ کے غصہ یا نفرت کا نہیں بلکہ رحم دلی اور محبت کا مستحق ہے. رسول ص ساری ساری رات اس غم میں روتے تھے کہ لوگ سیدھی راہ پر نہیں آرہے. یاد رکھیں کہ نفرت کیساتھ درد مندی ممکن ہی نہیں ہے. اپنے مرحوم سسر کا واقعہ سناتے ہوئے بولے کہ ان کی زبان سے زندگی بھر کسی کی غیبت یا شکایت نہ سنی. اگر کوئی زبردستی پوچھ لیتا کہ فلاں آدمی مسجد باقائدگی سے آتا ہے یا نہیں؟ تو درد مندی سے کہتے کہ “بیچارے” مسجد نہیں آتے. لفظ بیچارے اسی لئے استعمال کرتے تھے کہ انہیں اس شخص پر ترس آتا جیسے ہمیں ایک بیمار انسان کو دیکھ کر غصہ نہیں اسکی حالت پر ترس آتا ہے. دعوت صرف محبت ہی سے پراثر ہوسکتی ہے. بتایا کہ برصغیر میں اسلام سب سے پہلے کسی عالم سے نہیں بلکہ مسلمان تاجروں سے آیا جنہوں نے محبت اور اخلاق سے اسلام کو پیش کیا.
٧. مفتی صاحب نے کہا کہ ہمیں جہاد کا ذکر کرتے ہوئے شرمانا نہیں چاہیئے. یہ ہمارے دین کے ایک اہم نظریہ کی مانند ہے. البتہ آج لفظ جہاد کو شدید بدنام کردیا گیا ہے اور جہد کی حقیقت مسخ کردی گئی ہے. یہ دہشت گرد جو جہاد کا نام لے کر معصوموں کی گردن اتارتے ہیں اور خود کش حملے کرتے ہیں یہ جہاد نہیں ہے بلکہ جہاد کو بدنام کرنا ہے. رسول ص حکم دیتے تھے کہ جب تک سامنے سے حملہ نہ ہو تم ابتدا نہ کرنا، عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو نہ مارنا. البتہ اگر آج بھی کوئی حملہ کردیتا ہے تو ہم جہاد کریں گے.
٨. مفتی صاحب نے کہا کہ صحابہ رض کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ بھی اجتہادی اختلاف کرتے تھے مگر محبت کیساتھ. نماز ساتھ ایک دوسرے کے پیچھے پڑھتے تھے. آج ہمارا نام مسلمان نہیں رہا. ہم دیوبندی، بریلوی، سلفی بن گئے ہیں. اپنے اپنے مسلک کی خدمت کرتے ہیں دین کی نہیں. ہمیں دین کے مشترکہ مقاصد پر جمع ہونا ہوگا اور اختلاف کو نفرت بننے سے روکنا ہوگا. یہی اکابر کا حقیقی طریق ہے. مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کا واقعہ سنایا کہ شیعہ افراد کی طرح کچھ اہل سنہ کے لوگ بھی تعزیہ نکالتے تھے جو ہمارے نزدیک غلط اور بدعت ہے. ایک بار ہندوستان میں ہندو مسلم جھگڑے ہوئے. مولانا تھانوی نے وجہ معلوم کی تو بتایا گیا کہ مسلمانوں کے کچھ گروہ تعزیہ نکالتے ہیں اور ہندو گروہ کہہ رہے ہیں کہ ہم انہیں نکالنے نہیں دیں گے. اگر شاید یہ واقعہ آج پیش آیا ہوتا تو لوگ کہتے کہ اچھا ہوا نہیں نکالنے دیتے، بدعت سے جان چھوٹی . مگر نہیں مولانا تھانوی نے کہا کہ ہمیں مسلمانوں کی اس ضمن میں حمایت کرنی چاہیئے کہ اس وقت مقابل کفر ہے. لہٰذا مسلمانوں کو اپنا اختلاف بھلا کر ان کے سامنے کھڑا رہنا چاہیئے. یہ ہے اکابر کا طریق.
.
٩. مفتی صاحب نے کہا کہ آج آپ انگلینڈ میں بھی اتحاد سے نہیں رہ رہے اور طرح طرح کے مسائل پر لڑ رہے ہیں. اب رویت ہلال کا مسلہ ہی لے لیں. ایک عید نہیں کررہے. حالانکہ یہ اجتہاد میں اختلاف کا معاملہ ہے لہٰذا اگر اتحاد امت کیلئے آپ کسی بھی اجتہاد پر اتفاق کرلیں ، چاہے وہ آپ کے مخالف کا ہو تو اچھا ہے. ہم ان سب میں الجھ کر دین کے مشترک مقصد کو بھولے بیٹھے ہیں.
.
١٠. مفتی صاحب نے کہا کہ اسلام و فوبیا کے بڑے ذمہ دار ہم خود ہیں. جہاد کا غلط مطلب مسلمان گروہوں نے بتایا. شر اور دہشت گردی پھیلا کر اسے جہاد کہنے لگے تو دہشت گردی کا ٹھپا ہم نے خود اپنے اوپر لگا لیا. سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے نوجوان کو سنبھالیں انہیں دین کی اچھی تربیت دیں اور غلط ہاتھوں میں جانے سے بچائیں.
.
١١. مفتی صاحب نے کہا کہ کئی دہشت گرد جو آج جہادی بنے بیٹھے ہیں بہت امکان ہے کہ دشمنوں نے ہی بنائے ہوں کہ آج اگر اس کا حقیقی فائدہ کسی کو ہے تو دشمن ہی کو ہے. مگر قصور ہمارا ہے ہماری کمزوری کا ہے.
.
١٢. مفتی صاحب نے کہا کہ علمی اختلاف دلائل سے کرنا کوئی بری بات نہیں. بس یہ نفرت کا موجب نہ بنے. خدا کیلئے آپ سب مسلمانوں کے اتحاد کیلئے جمع ہوں. میرے والد مفتی محمد شفیع کی کتاب “وحدت الامت” میں یہی پیغام ہے.
.
١٣. مفتی صاحب نے کہا کہ موجودہ پروپیگنڈے کا تحقیی جائزہ لیں اور مدلل جواب دیں.
.
١٤. مفتی صاحب نے کہا کہ آخری بات یہ یاد رکھیں کہ مایوسی گناہ ہے.
(یادداشت و تدوین: عظیم الرحمٰن عثمانی)