الاستفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
میرا نام عشرت فہیم ہے ، میرے چھوٹے بھائی ارشد فہیم کی کوئی اولاد نہیں ہے ، میرے ہاں جب تیسری اولاد ( بیٹی ) اللہ نے دی تو پیدا ہوتے ہی میں نے اور میری بیوی نے اپنے چھوٹے بھائی ارشد فہیم کی گود میں ڈال دیا تھا ۔ اب وہ ماشاءاللہ تین سال کی ہوگئی ہے ، پیدائش کے وقت تمام معاملات کی طرح میں نے اسکا برتھ سرٹیفیکیٹ اور فارم ب بنوالیا تھا اپنے نام سے چونکہ مجھے اس بات کی معلومات تھیں کہ ولدیت اصل ہی رہتی ہے تبدیل نہیں ہوتی ، اب چونکہ اسکول میں داخلے کا وقت ایا تو میرے چھوٹے بھائی نے بغیر مجھے اطلاع کیے ولدیت تبدیل تبدیل کردی اور میرے نام کے بجائے اپنا نام لکھوا کر برتھ سرٹیفیکیٹ بنوالیا ۔ جب مجھے پتہ چلا تو یہ کہا کہ اسکول میں داخلے کے لیئے مسلہ ہورہا تھااسلیئے یہ کیا ۔ بہرحال ! ۔۔۔۔۔۔۔مجھے فتوی درکار ہے اس مسلہ کا کہ :
1) کیا ولدیت تبدیل کی جاسکتی ہے اور اگر انہوں نے پیدائشی سرٹیفیکیٹ بنوالیا ہے تو اب کیا حکم ہوگا ؟
2) کیا اسکول وغیرہ میں گاڑڈین کے طور پر نام لکھوایا جاسکتا ہے ، اور پکارا جاسکتا ہے ۔ مثلا اگر بچی کا نام زینب ہے اور صرف اسکول میں زینب ارشد لکھوایا جاسکتا ہے پکارنے کے لیئے ؟
3) بچہ یا بچی کو کب بتایا جائے گا کہ اسکے اصل والدین کون ہیں ؟
4) ہوسکتا ہے سوال میں کمی بیشی ہو لیکن ازراہ کرم شریعت کی رو سے اس مسئلہ کی تفصیل سے آگاہی اور فتوی عنایت فرمادیں ، نوازش ہوگی ۔
العرض عشرت فہیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامداومصلیا
1)۔شرعا کسی بچے کو منہ بولا بیٹا بنانا ، اسکی پرورش کرنا اور بیٹے کی طرح پالنا اور تربیت کرنا اگرچہ جائز ہے ، لیکن شرعی لحاظ سے وہ حقیقی طور پر نسبی بیٹا نہیں بنتا ، اور نہ ہی اس پر بیٹا ہونے کے احکامات مثلا وراثت اور شرعی پردہ وغیرہ جاری ہوتے ہیں ، اور پرورش کرنے والا بچے کا حقیقی والد نہیں ہوگا ، لہذا صورت مسئلہ میں ارشد کے لیئے اس بچی کی پرورش کرنا ، اسکی تعلیم و تربیت کرنا ، اور ایک دوسرے کے ساتھ باپ بیٹی کی طرح پیش آنا تو جائز ہوگا ، لیکن اسکے نام و نسب کو اسکے حقیقی والد ( عشرت فہیم ) کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے اور اس میں تبدیلی کرکے اپنا نام درج کروانا ناجائز اور گناہ ہے لہذا اس کے ساتھ برتھ سرٹیفیکیٹ وغیرہ میں ارشد فہیم کا نام بطور والد کے لکھنا جائز نہ ہوگا ، اور اگر لکھا ہے تو اسمیں ترمیم کرکے بچی کو اسکے اپنے حقیقی والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے ۔
( از تبویب ۱۹۶۰/ ۱۴ )
الجامع لاحکام القرآن ( ۱۴/ ۱۸۷ )
ادعوھم لآبائھم ھو اقسط عند اللہ
الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین ( رد المختار ) ( ۵۸۵/۵ )
قال ۔ علیہ الصلوۃ والسلام ۔ « من انتسب الی غیر ابیہ او انتمی الی غیر موالیہ فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمع
۲۔ واضح رہے کہ بطور سرپرست نام کے خانے میں نام لکھوایا جاسکتا ہے ، ولدیت کے خانے میں نام لکھوانا جائز نہیں ، اسی طرح بطور سرپرست زینب کے ساتھ ارشد کا نام لگایا جاسکتا ہے بطور والد کے نہیں لگایا جاسکتا ۔
الجامع لأحکام القرآن ( ۱۸۷/۱۴ )
ادعوا ھم لآبائھم ھو اقسط عند اللہ
تفسیر ابن کثیر ۔ ط دار طیبۃ ۔ ( ۳۷۹/۶ )
وقد جاء فی الحدیث : ” من ادعی لغیر ابیہ ، وھو یعلمہ کفر ( ۱) . ( ۲ )
وھذا تشدید وتھدید ووعید اکید ، فی التبری من النسب المعلوم ؛ ولھذا قال :
{ ادعوھم لآبائھم ھو اقسط عند اللہ فان لم تعلموا آبائھم فاخوانکم فی الدین وموالیکم }
روح المعانی ( ۱۴۹/۲۱ )
ویعلم من الآیۃ انہ لا یجوز انتساب الشخص الی غیر ابیہ وعد ذالک بعضھم من الکبائر لما اخرج الشیخان وابو داؤد عن سعد بن ابی وقاص ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : من ادعی الی غیر ابیہ وھو یعلم انہ أبیہ فالجنۃ علیہ حرام
واخرج الشیخان ایضا من ادعی الی غیر ابیہ او انتمی الی غیر موالیہ فعلیہ لعنۃ اللہ تعالی والملائکۃ والناس اجمعین لا یقبل اللہ تعالی منہ صرفا ولا عدلا وأخرجا ایضا لیس من رجل ادعی لغیر ابیہ وھو یعلم الا کفر
واخرج الطبرانی فی الصغیر من حدیث عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ وحدیثہ حسن قال : قال رسول اللہ کفر من تبرأ من نسب ………..
۳۔ لے پالک بچے کو اسکے اصل والدین کے بارے میں بتانے کے لیئے کوئی خاص وقت متعین نہیں ہے ، بلکہ جب بچہ باشعور ہوجائے ، اور رشتے جاننے لگے ، اور ضرورت محسوس ہو اس وقت بتادینا چاہیئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
الجواب صحیح
دارالافتاء دارالعلوم کراچی
۱۸ /شعبان / ۱۴۳۹ھ
مئی / ۲۰۱۸ء
الجواب صحیح
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
۱۴ / شعبان / ۱۴۳۹ھ
یکم / مئی / ۲۰۱۸ء
الجواب صحیح
دارالافتاءجامعہ دارالعلوم کراچی
۱۴ / شعبان / ۱۴۳۹ ھ
۱ / مئی / ۲۰۱۸ء
عربی حوالہ جات وپی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/947926928909886/