دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:101
کیافرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک موٹر سائیکل کمپنی کے نمائندے کے طور پر چند اشخاص نے مل کر ایک اسکیم شروع کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بذریعہ اسکیم 100 موٹر سائیکل 100 لوگوں کو فروخت کیے جائیں گے ، جن میں سے ہرموٹر سائیکل 46500 روپے کا ہوگا جس کی قیمت 15 ماہ کی اقساط میں ادا کی جائے گی اور آخر میں موٹر سائیکل ہر گاہک کے حوالے کیاجائے گا ۔
البتہ کمپنی نے لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے ان میں ایک انعامی اسکیم شامل کی ہے وہ یہ کہ پہلے چودہ ماہ میں ہر مہینہ تمام گاہکوں میں قرعہ اندازی ہوگی ، جس شخص کانام قرعہ اندازی میں نکل آیا اس کی آئندہ اقساط ختم کرکے اسے موٹر سائیکل دے دیاجائے گا لیکن اگر گاہک نے قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی تو اس کا نام اس ماہ کی قرعہ اندازی سے خارج کردیاجائے گا نیز نام نکلنے والی اقساط ختم کرنے سے بقیہ گاہکوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
انعامی اسکیم کے پرچے میں ایک شرط یہ بھی لکھی گئی ہے کہ اتنی مدت میں خریداری کا معاملہ ختم کرنے سے گزشتہ اقساط کی رقم ضبط تصور ہوگی اور اس فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیاجاسکے گا۔ لیکن نمائندگان کا کہنا ہے کہ یہ شرط ہم نے نقصان دہ عناصر کو اسکیم میں شمولیت وغیرہ سے روکنے کے لیے لگائی ہے وگرنہ ہم زبانی طور پر گاہکوں کو یہ بتادیتے ہیں کہ خریداری ختم ہونے کی صورت میں آپ کی جمع شدہ اقساط اسکیم کے آخر میں ( 15 ماہ) آپ کو ادا کی جائیں گی ۔
اگر اس کے باوجود بھی یہ معاملہ ناجائز ہو تو ا س کا متبادل راستہ ارشاد فرمائیں ۔
نوٹ : یہ بات ملحوظ رکھی جائے کہ یہاں موٹر سائیکل بھی گاہکوں کے ساممنے موجود ہے ا ور اس کی قیمت بھی معلوم ہے یعنی ثمن قیمت سے مراد ثمن ہے ۔
جواب سے مشکور فرمائیں
جزاکم اللہ خیرا
الجواب حامداومصلیاً
سوال میں مذکور اسکیم میں شرکت کرنا اور اس کے ذریعہ موٹڑ سائیکل حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ،کیونکہ اس اسکیم کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں شرکاء سے ہر ماہ جورقم قسط وار لی جاتی ہے اس کی حیثیت شرعاً قرض کی ہے اس طرح اسکیم کے منتظمین ہر ماہ ہزاروں روپے حاصل کرتے ہیں اورا س رقم سے اپنے لیے کاروبار کرتے ہیں اور ہر ماہ ایک ممبر کو قرعہ اندازی کے ذریعے موٹر سائیکل ملتی ہے اور اس سے بقیہ اقساط ساقط کردی جاتی ہیں، اس طرح ممبر کو جمع کرائی ہوئی رقم سے زیادہ کی موٹر سائیکل مل جاتی ہے ، مثلا ایک ممبر نے 9000 روپے قرض دیے ہیں اور نام نکل آنے پر اسے 46500 روپے قیمت کی موٹر سائیکل مل جاتی ہے اور یہ نفع اسے قرض دینے کی وجہ سے حاصل ہوا ہے اور ہر وہ نفع جو قرض کی وجہ سے حاصل ہو وہ سود ہے اور حرام ہے ، نیز اس میں یہ شرط بھی ہوتی ہے کہ جو تمام اقساط کی ادئیگی سے پہلے اسکیم چھوڑنا چاہے اس کو اپنی دی ہوئی رقم واپس نہیں ملے گی ، یہ شرط بھی ناجائز ہے ، لہذا اسکیم سود پر مبنی ہونے کی وجہ سے شرعاً جائز نہیں اس لیے یہ اسکیم چلانا اور اس میں حصہ لینا جائز نہیں ،ا س سے بچنا لازم ہے ۔واضح رہے کہ اس ا سکیم میں جتنے شرکاء ہوتے ہیں اتنی ہی موٹر سائیکل ہوتی ہیں اور ہر شریک کو واضح طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کو قرعہ اندازی کے بعد کون سی متعین موٹر سائیکل ملے گی اس لیے متبع متعین نہیں ، نیز ممبر کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ا س کا نام کون سے نمبر پر نکلے گا اور ا س کو کتنی قسطیں جمع کرانے پر موٹر سائیکل ملے گی اس لیے ثمن بھی مجہول ہے، لہذا سوال میں جو یہ لکھاگیا ہے کہ ” موٹر سائیکل بھی گاہکوں کے سامنے موجود ہے اور اس کی قیمت یعنی ثمن بھی مجہول ہے ، لہذا سوال میں جو یہ لکھاگیاہے کہ ” موٹر سائیکل بھی گاہکوں کے سامنے موجود ہے اور اس کی قیمت یعنی ثمن بھی معلوم ہے ” یہ بات درست نہیں ، لیکن اگر یہ تسلیم کر بھی لیاجائے کہ موٹر سائیکل اور ثمن واضح طور پر متعین ہوتے ہیں تب بھی چونکہ قرعہ اندازی کے بعد موٹر سائیکل حاصل کرنے والے ممبر سے اس کے ذمہ بقیہ اقساط ساقط کردی جاتی ہیں اور یہ مشروط سہولت اس کو قرض کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے ، اور قرض کی وجہ سے حاصل ہونے والی کوئی بھی مشروط سہولت سود ہے اس لیے یہ اسکیم اپنی موجودہ شکل میں جائز نہیں ۔
ا لبتہ اس اسکیم کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ا س میں قرض کی بجائے قسطوں پر خرید وفروخت کا معاملہ کیاجائے ، اور جس ممبر کا نام پہلے نکل آئے وہ موٹر سائیکل وصول کرنے کے بعد بھی دوسرے ممبر ان کی طرح ہر ماہ برابر قسطیں ادا کرتا رہے یہاں تک کہ موٹر سائیکلہ کی کل قیمت 46500 روپے ادا ہوجائے تا ہم اس میں درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا۔
1۔ موٹر سائیکل کی ایک قیمت واضح طور پر متعین کرلی جائے اور جس ممبر کا نام قرعہ اندازی میں نکل آئے اس کے ساتھ موٹر سائیکل کی فروختگی کا باقاعدہ ایجاب وقبول کیاجائے ۔
2۔ادائیگی کی مدت اور قسطوں کی مقدار اور ادائیگی کے اوقات بھی متعین ہوجائیں ۔
3۔قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے قیمت میں اضافہ یا جرمانہ کے نام پر زائد رقم وصول کی جانے کی شرط نہ لگائی جائے ۔
اگرا ن شرائط میں سے کسی ایک شرط کی بھی خلاف قرزی کی گئی تو یہ معاملہ ناجائز ہوجائے گا۔
ماخذہ التبویب )
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/542584849444098/