نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم، امّابعد!
عن انس رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ اذا اراد اللّٰہ بعبدہٖ الخیر عجل لہ العقوبۃ فی الدنیا واذا اراد بعبدہ الشر امسک عنہ بذنبہ حتٰی یوافی بہ یوم القیمۃ۔
(باب الصبر: ص ۶۵، ترمذی جلد: ثانی)
ہر بندے پر پریشانی آتی ہے:
حضرت انس سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جب اللہ اپنے بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو دنیامیں سزا جلدی دے دیتے ہیں اور جب اللہ اپنے بندے کے ساتھ شرکا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے گناہوں کو روک لیتے ہیں یعنی اس کو سزا نہیں دیتے یہاں تک کہ اس کا پورا پورا بدلہ قیامت میں دیں گے۔‘‘
( ترمذی شریف:۲/ ۶۵ باب فی الصبر علی البلاء مکتبہ ایچ ایم سعید)
اور نبی ﷺ نے فرمایا:’’ ثواب کی زیادتی مصیبتوں کے ساتھ ہے اور فرمایا کہ اللہ جب کسی قوم سے محبت کرتے ہیں تو ان کو کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا کردیتے ہیں اور جو راضی رہتا ہے اس کے لیے اللہ کی رضا ہے اور جو ناراض ہوجاتا ہے اس کے لیے اللہ کی ناراضگی ہے۔‘‘
(ترمذی: حدیث نمبر ۲۳۹۸ فیض القدیر: ۱/ ۲۵۸ ریاض الصالحین: ص ۴۱ طبع مکتبہ حکیم الامت)
اس حدیث میں گویا تین سبق ہمیں دیے گئے ہیں: پہلا سبق جو ہمیں دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے دنیا اور آخرت بنا ئی، دونوں اللہ کی بنائی ہوئی ہیں لیکن میرے دوستو! دنیا اور آخرت میں فرق یہ ہے کہ آخرت میں کبھی کسی پر کوئی پریشانی نہیں آئے گی ۔ سوائے کافروں کے اور ان گناہ گاروں کے جو جہنم میں چلے جائیں گے اور ان کے علاوہ جو ایمان والے لوگ ہونگے جنت میں چلے جائیں گے وہ کبھی پریشانی کو دیکھیںگے بھی نہیں ان کوپتہ بھی نہیں ہوگا کہ پریشانی کیا ہوتی ہے۔ اس کے بر خلاف اللہ نے دنیا بنائی ہے دنیا میں کوئی بندہ ایسا نہیں کوئی ولی ایسا نہیں کوئی نبی ایسا نہیں جس پر پریشانی نہ آئی ہو۔
پریشانیاں گناہوں کا کفارہ:
اب میرے دوستو! نیک لوگوں پر جب پریشانیاں آتی ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میرے اللہ نے یہ معاملہ میرے ساتھ اس طرح کردیا کہ یہ میرے گناہوں کا کفارہ بن گیا۔ انسان اپنے گناہ سمجھ لے میرے گناہ ہیں، میں گناہ گارہوں اور یہ جو دنیا میں اللہ مجھے پریشانیاں دے رہے ہیں یہ میرے گناہوں کی وجہ سے دے رہے ہیں۔ اب اس پرانسان اللہ سے استغفار شروع کردے اللہ سے توبہ کرے کہ اے اللہ! میرے گناہوں کی وجہ سے یہ پریشانیاں آئی ہیں اس لیے مجھے معاف کردے جب انسان یہ طریقہ اختیار کرے گا تو ان شاء اللہ خیر ہی خیر ہے، اس کے لیے شر نہیں گویا اس کے سارے گناہ معاف ہوتے چلے جائینگے اور پھر موت کا وقت جب آئے گا تو ایسا پاک صاف ہوکر جائے گا جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہواتھا اس طرح پاک صاف ہوگا کہ مرتے ہی انشااللہ جنت کی نعمتوں سے مستفید ہوگا۔
محترم دوستو! پریشانیوں کا کم آنا یہ بھی خطرے کی بات ہے پریشانیاں میں نے کہا کہ ہر ایک کو آئیں گی لیکن جو کافر لوگ ہوتے ہیں منافق قسم کے لوگ ہوتے ہیں جن کا اللہ سے تعلق کم ہوتا ہے ان پر پریشانیاں کم آتی ہیں اللہ ان کو چھوٹ دیتے ہیں سالوں گزرگئے کوئی بیماری نہیں آئی کوئی پریشانی نہیں آئی اور اگر آئی بھی تو دورہوگئی اس کی جگہ اللہ نے اور طرح طرح کے دروازے کھول دیے تو اگر اللہ کی طرف سے یہ معاملہ ہوکہ پریشانیاں کم آرہی ہوں اوراللہ کی نافرمانیاں بڑھ رہی ہوں تو یہ بڑی خطرے کی بات ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اللہ اس کوپوری پوری سزاآخرت میں دینا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ آخرت میں جاکر اس کو خوب پکڑیں گے، اس کو چھوڑ ینگے نہیں اور اس کوجہنم کا ایندھن بنادیں گے۔ اس لیے میرے دوستو! جب بھی انسان پر پریشانیاں آئیں تو اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں، اللہ سے توبہ استغفار کریں اور اگر پریشانیاں نہ آئیں تو فکر کریں۔
گناہوں پر استغفار کرنا چاہیے:
علماء نے فرعون کا نام عام طور پر ولید لکھا ہے اس کی عمر 640سال تھی اس کو اللہ کی طرف سے اتنی چھوٹ ملی کہ 640سال میں ایک دفعہ بھی سرمیں درد نہ ہواتو ایسے آدمی کو غروروتکبر کہاں لے جائے گا؟ وہ اپنے آپ کو کتنا بڑا سمجھنے لگے گا؟ فیصلہ آپ خود کرلیں۔ اسی لیے اس نے اپنے آپ کو کہا انا ربکم الاعلٰی میں تو بڑارب ہوں، میں سب کارب ہوں، یعنی اس نے خدائی کا دعویٰ کردیا تو اس سے معلوم ہوا کہ پریشانیوں کا نہ آنا انسان کے ذہن میں یہ خبط بٹھا دیتا ہے کہ میں معاذاللہ بڑا اچھا ہوں بڑااعلیٰ وارفع ہوں اور معاذاللہ یہ خیال خدائی کے دعوے تک لے جاتا ہے۔
اس لیے پریشانیوں کا آنا یہ اچھی علامت ہے پریشانیوں کا نہ آنایہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے لیکن پریشانیوں کے آنے پر اپنے گناہوں سے استغفار یہ اس سے بڑھ کرہے مگر پریشانیاں آنے کے بعد گناہوں پر استغفار نہ کرنا یہ میرے دوستو کوئی اچھی علامت نہیں ہے یہ انسان کوئی اچھا کام نہیں کررہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگ رہا ۔
بعض لوگوں کو دیکھاکہ جب پریشانی آتی ہے تو معاذ اللہ !کہتے ہیں کہ جی ہم سے کون سا گناہ ہوگیا جو یہ پریشانی آئی ہے ؟یعنی سمجھتے یہ ہیں کہ ہم تو بڑے پاک صاف ہیں اور ہم سے کوئی گناہ ہوہی نہیں سکتا اس لیے پتہ نہیں ہم سے کیاگناہ ہوگیا؟ تو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، حالانکہ انسان اگر سوچے تو دن رات میں انسان پتہ نہیں کتنے گناہ کرتا ہے اور انسان کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ میں گناہ کررہا ہوں اور پھر کہتا ہے کہ پتہ نہیں کون سا گناہ ہوگیا۔
دل گناہ کا احساس دلاتا ہے:
اللہ نے انسان کو جو دل عطا کیا ہے، اہل اللہ فرماتے ہیں اور اللہ کے نبیﷺ کی حدیث بھی ہے کہ انسان کا دل سب سے پہلے اس کو بتلاتا ہے کہ کو ن سا گناہ اس نے کیا ہے، جب بھی کوئی گناہ انسان کرتا ہے تو فوراً دل کے اندر ایک احساس پیدا ہوتا ہے، فوراً دل کے اندریہ بات پیدا ہوتی ہے کہ میں نے یہ غلطی کی ہے الاثم ماحاک فی صدرک۔ (مسلم: ۲/۳۱۵ باب تفسیر البروالاثم) اور اگر کسی کا دل مرجائے اس کے اندر احساس پیدانہ ہوتو وہ دوسری بات ہے جن کادل زندہ ہوتا ہے ان کے دل میں اللہ احساس ضرور پیدا کرتے ہیں ۔آپ تجربہ کرکے دیکھ لیں آپ سے کوئی گناہ ہوگیا تو طبیعت میں بے چینی پیدا ہوجائے گی۔اس لیے اگر فوراً انسان استغفار کرلے اللہ! سے معافی مانگ لے کہ اے اللہ مجھ سے گناہ ہوا مجھے معاف کردیں۔ تو طبیعت میں ایک سکون پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ سکون اور بے چینی دونوں دل کی کیفیتیں ہیں۔ جس کے ذریعے وہ انسان کو نیکی یا گناہ سے خبردار کرتا ہے۔ میرے دوستو!گناہ تو انسان کے بہت ہیں، انسان اتنے گناہ کرتا ہے کہ سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اس لیے انسان جب گناہ کرتا ہے تو اللہ کی طرف سے پریشانیاں بیماریاں اور مصیبتیں آیا کرتی ہیں اور جب مصیبتیں پریشانیاں آئیں تو انسان کا کام یہ ہے کہ استغفار کرے کہ اے اللہ !آپ مجھے دنیا کی پریشانیوں میں ڈال کر گناہوں سے پاک کررہے ہیں اور آخرت میں مجھے آپ کی رحمت سے اُمید ہے کہ آپ مجھے جنت عطا کردیں گے ۔ گویا انسان اللہ کی رحمت سے اُمید رکھتے ہوئے اپنے دل کو تسلی بھی دے اور زبان سے بھی یہ بات کہے تو ان شاء اللہ! بہت فائدہ ہوگا انسان پریشانیوں کو آسانی سے برداشت کرے گا ورنہ انسان پریشانیوں کو آسانی سے برداشت نہیں کرتا طرح طرح کی باتیں کرتاہے جب جس سے ملتا ہے یہ پریشانی وہ پریشانی بس ہر وقت یہ ہی گن گاتارہتا ہے۔ جس سے پریشانیاں کم نہیں ہوتیں بلکہ اور بڑھ جاتی ہیں ۔پریشانیاں کم کرنے کا طریقہ صرف استغفار ہے۔
پریشانیوں سے درجات بلند ہوتے ہیں:
میرے دوستو! ایک بات تو اللہ کے رسول ﷺنے یہ بتلائی کہ اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتے ہیں تو ان کو دنیا میں طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا رکھتے ہیں اور جن کے ساتھ شرکا ارادہ ہوتا ہے ان کو دنیا میں پریشانیاں کم دیتے ہیں یہاں تک کہ پوراپورا حساب آخرت کے لیے رکھ دیتے ہیں کہ جب آخرت میں جائیں گے تو ان سے وہاں جاکر پوچھیںگے انسان کے پاس مال ودولت کی فراوانی ہو۔ اللہ کی نعمتیں برس رہی ہوں اور طرح طرح کی آسائشیں میسر آرہی ہوں اور اس پر پریشانیاں نہ آرہی ہو ں تو یہ اچھی علامت نہیں ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے گناہوں کی اللہ سے معافی مانگا کرے کہ اے اللہ! مجھے کوئی پریشانی نہیں آئی کوئی بیماری نہیں آئی کہیں ایسانہ ہوکہ آپ مجھے آخرت میں سزا دینا چاہتے ہوں اے اللہ! مجھے معاف کردیں۔
دوسری بات یہ بتلائی کہ جتنی زیادہ مصیبتیں آئیں گی اتنا بڑااجر آخرت میں ملے گا یہاں تک کہ حدیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن جب ان لوگوں کو لایا جائے گا جنہوں نے دنیا میں پریشانیاں اور تکلیفیں اُٹھائیں اوراللہ کی طرف سے بدلے ملنا شروع ہوںگے کہ فلاں تکلیف کے بدلے میں یہ ملا فلاں کے بدلے یہ ملا فلاں کے بدلے میں یہ ملا اتنا کچھ ملے گا کہ وہ شخص کہے گا کہ کاش! میرا جسم دنیا میں قینچیوں سے کاٹ دیا جاتا اور آج جو یہ بدلے اللہ دے رہے ہیں یہ مجھے مل جاتے۔
(ترمذی: ۲/۶۶ ابواب الزھد)
اس لیے فرمایا کہ جتنی زیادہ پریشانیاں آئیں گی اتنے درجات بڑھتے چلے جائیں گے اتنا اجر اللہ کے یہاں بڑھتا چلا جائے گا ۔
اس سے معلوم ہو اکہ گناہ تو ہر انسان سے ہوتے ہیں اور اگر کوئی یہ کہے کہ میں تو گناہ گارنہیں ہوں میں توگناہوں سے پاک صاف ہوں اگر کوئی یہ دعویٰ کر ے تب بھی اللہ کی طرف سے پریشانیاں آرہی ہوں تویہ درجات بلند ہورہے ہیں لیکن یہ کام تو صرف نبیوں کا ہے نبیوں کے درجات بلند ہوتے ہیں ان کے گناہ نہیں ہوتے لیکن ہمارے جیسے لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ ہمارے گناہ ہی معاف ہوجائیں تو ہمارے لیے یہ ہی بہت بڑی بات ہے ۔
جواﷲ نے لکھ دیا وہ ہوکر رہے گا:
تیسری بات اللہ کے رسولﷺ نے یہ فرمائی کہ دیکھوتقدیر میں جو لکھا ہے وہ ہوکر رہے گا اللہ نے اگر پریشانیاں ہماری تقدیر میں لکھی ہیںتو مل کر رہیں گی، اگر بیماریاں لکھی ہیں تو وہ آئیں گی اگر اور کوئی حالات رکھے ہیں وہ آکر رہیں گے اب انسان کی خیراس میں ہے کہ اللہ کے فیصلے پر راضی رہے کہ اے اللہ جو آپ کا فیصلہ ہے میں اس پر راضی ہوں فرمایا اگر راضی رہے گا تو اللہ بھی اس کو اپنی رضا نصیب فرما دیں گے اور اگر اللہ کے فیصلوں پر ناراض ہوگا تو اللہ بھی اس سے ناراض ہوجائیں گے۔‘‘
(ترمذی: ۲/۳۶ ابواب القدر)
جو اللہ نے لکھ دیا وہ ہوکر رہنا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ انسان کمزور ہے ایسی باتیں اُس وقت بھول جاتا ہے۔ اس طرف انسان کی توجہ نہیں جاتی۔ لیکن انسان دل کے ارادے اور قصد کے ساتھ کوشش یہ کرے ، اس بات کا استحضار کرے اس بات کو بار بار سوچے بار بار غور کرے کہ اللہ نے یہ پریشانی میرے لیے لکھ دی تھی یہ پریشانی مجھے آکر رہنی تھی،اس لیے اے اللہ! میں اس حال میں راضی ہوں لیکن میں کمزورہوں اس کو برداشت نہیں کرسکتا جب تک آپ اس کو بدلتے نہیں میں آپ کے اس فیصلے پر راضی ہوں اے اللہ! اس کو بدل دیجیے! میرے لیے خیر کا فیصلہ فرمادیجئے۔
اے اﷲ! ہم کمزور ہیں:
ہمارے حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اﷲ کے بارے میں مشہور ہے کہ حضرت ایک مرتبہ یہ بیان فرمارہے تھے کہ اللہ کے ہر فیصلے میں خیر ہوتی ہے اس لیے اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے اب حضرت نے یہ بھی کہہ دیا کہ کبھی بیماری آتی ہے اس میں بھی خیر ہوتی ہے اس میں بھی بندے کے گناہ معاف ہوتے ہیں بندے کو اللہ پاک صاف کردیتے ہیں جنت عطا فرمادیتے ہیں تو یہ بیان فرمارہے تھے۔ اتنے میں ایک شخص چیختا چلا تا ہو ا آیا اور کہنے لگا کہ حضرت !سر میں بڑا شدید درد ہورہا ہے میں مررہا ہوں میرا سر پھٹ رہا ہے دُعا کیجیے اللہ اس سر کے درد کو دور فرمادیں۔ اب جو لوگ حضرت کے اردگرد بیٹھے تھے سب یہ سوچنے لگے کہ ابھی تو حضرت یہ کہہ رہے تھے کہ اللہ کے ہر فیصلے میں خیر ہوتی ہے تو اب اس کے جو سرمیں اتنا درد ہورہا ہے اب حضرت کیا کریں گے؟ تو حضرت نے اس وقت یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ! بیماری میں بھی خیر ہے اس سے بندے کے گناہ معاف ہوتے ہیں اس لیے اس میں بھی خیر ہے لیکن اے اللہ! ہم کمزور ہیں ہم اس خیر اور اس نعمت کو برداشت نہیں کرسکتے آپ اس بیماری والی نعمت کو تندرستی والی نعمت سے بدل دیجئے ۔
یہ دُعا کرکے گو یا دونوں حق ادا کردیے پریشانی ہے تو اللہ کی نعمت ہے تو مومن کے لیے خیر کی چیز لیکن عام طور پر مومن اس کو برداشت نہیں کرتا اس لیے اللہ کے حضور یہ دُعا کیا کریں کہ اے اللہ یہ ہے تو ہمارے لیے خیر کی چیز لیکن ہمارے اوپر اتنی پریشانی نہ ڈالیے اتنی مصیبت نہ ڈالیے کہ ہم برداشت نہ کرسکیں۔
ﷲ والے ہمیں اعتدال سکھاتے ہیں:
میرے دوستو! یہ اللہ والے ہمیں اعتدال سکھاتے ہیں۔ ورنہ دونوں قسم کی حدیثوں کو سامنے رکھیں تو ہم ان پر چل ہی نہیں سکتے۔ یہ اللہ والوں کا کام ہوتا ہے ۔یہ ہر چیز میں ہمیں ایسا سبق سکھلاتے ہیں کہ شریعت کا مسئلہ بھی صحیح رہتا ہے اور اللہ سے تعلق بھی جڑارہتا ہے۔ اس لیے ایمان والے کے لیے اللہ سے تعلق پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جو پریشانیاں آئیں تو یہ سمجھ لے یہ غور کرے کہ یہ میرے لیے اللہ نے مقدر میں لکھ دیں تھیں۔ اس کے خلاف نہیں ہوسکتا تھا میں جتنی بھی کوشش کرتا یہ آ کررہنی تھیں لیکن اے اللہ! ان پریشانیوں کو ہم پر اتنا نہ ڈال کہ ہم اس کو برداشت نہ کرسکیں ہم کمزور ہیں ان کو اچھی حالت میں بدل دیجئے ۔
اللہ والے فرماتے ہیں کہ انسان کاکوئی عزیز یا رشتے دار بیمار ہوجاتا ہے اس کو بڑے اعلیٰ ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے لیکن وہ مرگیا اب کہتے ہیں ایسا کر لیتے ویسا کرلیتے فلاں ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ۔یہ انسان اپنے دل کو تسلیاں دیتا ہے لیکن یہ بات یاد رکھیئے کہ انسان جتنے بڑے ڈاکٹر کے پاس چلا جائے لیکن اللہ کے لکھے ہوئے کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ اللہ نے جو لکھا ہے وہ ہوکر رہے گا ہم اپنے طور پر جتنی کوشش کرلیں جو اللہ نے تقدیر میں لکھا ہے وہی ہوکر رہتا ہے۔ اس لیے کئی دفعہ دیکھا کہ اتنے بڑے بڑے ڈاکٹر ہوتے ہیں ان کے پاس مریض کو لے کر جاتے ہیں تو وہ دیکھتے ہی کہہ دیتے ہیں کہ اس کا تو کوئی علاج ہی نہیں ہے۔ ان کو گھر لے جائیے ان کی خدمت کیجیے اور ان کے لیے دُعا کیجیے۔ اگر دُعا سے کام چلے تو چل جائے ورنہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ تو معلوم ہواکہ دنیا کا کتنا بڑا ڈاکٹر کیوں نہ ہو وہ اللہ کے فیصلے کو نہیں بدل سکتا۔ وہ بھی یہ کہہ کرکہ دُعا کیجیے۔ یہ بتلا رہا ہے کہ ہم کمزور ہیں، ہم عاجز ہیں، کرنے والی ذات اللہ کی ہے سارے اختیار ات اللہ کے پاس ہیں۔ اس لیے اگر یہ یقین ہمارے اندر آتا چلاجائے گا تو ان شاء اللہ ! اللہ سے تعلق بڑھتا چلائے گا ۔ اللہ ہمیں اپنا تعلق نصیب فرمائے اور اس حدیث میں جو سبق ہمیں دیا گیا ہے اس پر عمل کی تو فیق عطا فرمائے۔ (آمین)
Load/Hide Comments