مولوی کے بغیر

ایک دوست نے فرمایا یہ کہ اگر مولوی درمیان سے ہٹ جاوے تو خالق و مخلوق میں تعلق قائم ہو جائے ۔

یہ سن کر میرے دماغ میں سوچ کے کئی در وا ہوگئے 

کیسی ہوگی دنیا مولوی کے بغیر 

میں تصور کرتا ہوں کہ جب کل کی صبح سو کر اٹھوں تو دنیا مولوی کے وجود سے خالی ہو.

کل کا دن کوئی کسی مولوی کو نہ دیکھ سکے

میرا تخیل مجھے دکھلاتا ہے کہ کتنے ہی جنازے بے یار و مددگار پڑے ہیں کسی کو یہ نہیں معلوم کہ جنازے کی تکبیرات کتنی کسی کو یہ بھی نہیں معلوم کہ جنازے میں پڑھنا کیا ہے۔

میرا تخیل مجھے دکھلاتا ہے کہ آج دنیا میں کہیں قال اللہ اور قال الرسول صل اللہ علیہ وسلم کی آواز بلند نہ ہوئی۔

مجھے مساجد ویران نظر آتی ہیں ہزاروں کے مجمع میں چند بھی ایسے نہیں کہ جو اذان دے سکیں اور لاکھوں کے مجمع میں چند بھی ایسے نہیں کہ جو نماز پڑھا سکیں۔

میں ایک ایسی دنیا دیکھتا ہوں کہ جہاں لوگ قرآن کریم کی تلاوت سے قاصر ہیں اب بچوں کو کتاب اللہ حفظ کروانے کی کوئی ترتیب نہیں بنیادی مسائل کوئی نہیں بتلا سکتا ایک ایسی دنیا کہ جہاں بے پروا مائیں اولاد کو ٹی وی اسکرین کے آگے چھوڑ کر مطئن ہیں اور باپ نوٹوں کی مشین بنے اولاد کی تربیت کیلئے وقت نکالنے سے قاصر۔

مجھے اپنے اردگرد ناپاک لوگ چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں کہ جنہیں طہارت کے بنیادی مسائل بھی نہیں معلوم اور صفائی کے مسائل کا سرمو علم بھی نہیں۔

مجھے جمعہ و عیدین کی ویرانی دکھائی دیتی ہے مجھے حج کے موقع پر لوگوں کا پریشان پھرنا دکھائی دیتا ہے ۔

میرا تخیل مجھے ایک ایسی دنیا دکھاتا ہے کہ جہاں لاکھوں غریب بچے لاوارث ہیں اور انکی کفالت کیلئے کوئی مدرسہ نہیں۔

لوگ کہتے ہیں مولوی نے فرقہ پرستی کو ہوا دی میں ایک ایسی دنیا دیکھتا ہوں کہ جہاں ہر شخص اپنی ذات میں ایک فرقہ ہے۔

مجھے بے نکاحے لوگ دکھائی دیتے ہیں کہ جو ایجاب و قبول کیلئے مولوی کے محتاج تھے۔

پھر میں خود سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ہم نے خود کو تیار کرلیا تھا کہ مولوی کا خلا پر کر سکیں ۔

کیا ہم تیار تھے کہ مولوی کی کمی کو پورا کرسکیں ۔

شاید نہیں

بلکہ یقینا نہیں 

ابھی میں اس فکر میں ہی غلطاں و پیچاں ہوتا ہوں کہ کسی مسجد سے آواز بلند ہوتی ہے

اللہ اکبر اللہ اکبر

اللہ اکبر اللہ اکبر

اور میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں ابھی تک مولوی کی دنیا میں ہوں.

 

اپنا تبصرہ بھیجیں