دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:65
پراویڈنٹ فنڈ سے متعلق ہماری رہنمائی فرمادیں
٭ پراویڈنٹ فنڈ کی ایک خاص صورت سے متعلق فتویٰ ہمارے سامنے پیش کیاگیا ہے جس میں ایک کمپنی کو پراویڈنٹ فنڈ کی رقوم کو ٹرسٹ کی تحویل میں دینے کے بارے میں سوال کیاگیاتھا۔ا س فتویٰ کا خلاصہ یہ تھا کہ بیان کردہ خاص صورت میں پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰۃ ادا کرنا ملازمین پر لازم ہے ۔
٭ میزان بینک میں بھی پراویڈنٹ فنڈ کے تحفظ اور قانونی تقاضوں کی تکمیل کے لیے پراویڈنٹ فنڈٹرسٹ قائم کیاگیاہے اور ماہ بماہ تمام ملازمین کی تنخواہوں سے ایک خطیر رقم اس فنڈ میں منتقل کردی جاتی ہے ۔ ( ٹرسٹ ڈیڈ منسلک ہے )
٭ میزان بینک کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ جب ملازم کا استقلال (Confirmation ) کا وقت آتاہے تو HRڈیپارٹمنٹ میں ایک ( Application for Membership & authorization to deduct provident fund from salary ) کے عنوان سے ایک لیٹر س جمع کرانا ہوتا ہے ( لیٹر منسلک ہے )
- HR کی پالیسی میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ اگر کوئی ملازم ایک سال ریگولر ملازمت کا مکمل نہ کرے تو اس کو صرف اپنی تنخواہ کا جمع شدہ فنڈ دیاجائے گا اور کمپنی کا ملایا گیا حصہ اس کو نہیں دیاجائے گا۔
- ہر ماہ پراویڈنٹ فنڈ ٹرسٹ کی تحویل میں ہر ملازم کی بنیادی تنخواہ (Basic Salary ) کا دس فیصد جمع کرادیاجاتا ہے اور اتنی ہی رقم کمپنی ( میزان بینک ) اپنی طرف سے اس ٹرسٹ کی تحویل میں دے دیتی ہے۔اور ایک وقت میں کروڑوں کی رقم اس ٹرسٹ کی تحویل میں رہتی ہے ۔
- یہ بات متعین ہے کہ ٹرسٹ کی تحویل میں موجود رقم قانوناً بھی کمپنی کی ملکیت نہیں سمجھی جاتی ۔ کمپنی اس ٹرسٹ میں موجود رقم کو کسی صورت میں اپنا اثاثہ تصور نہیں کرسکتی ۔ نہ ہی اس رقم کو کمپنی اپنے استعمال میں لاسکتی ہےاور نہ ہی کسی کرائسس کی صورت میں اس رقم سے دیوان اد ا کئے جاسکتے ہیں ،ا ور نہ ہی شئیر ہولڈر ز کا اس رقم پر کسی قسم کا حق قائم ہوسکتا ہے ۔
1۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ٹرسٹ میں موجود رقم کو ملازم کی ملکیت تصورکیاجائے گا اوراس بنیاد پر ملازم پر سالانہ اس رقم کی زکوٰۃ بھی لازم ہوگی یا نہیں ؟
2۔ اگر یہ رقم ملازم کی ملکیت نہ تصور کی جائے تو اس رقم کا ادائیگی سے قبل شرعا مالک کون ہے ؟ اورا س کی زکوٰۃ کس کے ذمہ لازم ہے ؟ کیا اس صورت میں ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ ایک خطیر رقم کی زکوٰۃ کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے فقراء کے ساتھ حق تلفی ہورہی ہے ؟
سائلین ملازمین میزان بینک لمیٹڈ
Meezan Bank
The Trustees
Employccs Provident Fund Trust
Mezan Bank Limited
Head Office
Karachi.
,Dear Sir
APPLICATION FOR MEMBER SHIP &AUTHORIZATION TO DEDUCT PROVIDENT FUND FROM SALARY
Kindly enroll me as member of the Bank’ s Employess Provident Scheme,I hereby authorize you to deduct Provident Fund From my salary with effect From the date of my confirmation of my employment with MBL.
………………………..Signature
…………………………..Name
………………………….Grade
……………………….Emp.ID
………………….Date
Note: Zakat Declaration should be attached, if you don’t want deduction of zakat on P.F However attachment of declaration would be assumend that you are agree for Zakat Deduction.
الجواب حامداومصلیا ً
سوال میں ذکر کردہ تفصیل اور ہماری جمع کردہ معلومات کے مطابق میزان بینک کے پراویڈنٹ فنڈ کی رقم ادارے کے اپنے اکاؤنٹ کے بجائے الگ ٹرسٹ میں رکھی جاتی ہے اور یہ ٹرسٹ قانوناً مستقل مالی حیثیت کا مالک ہوتاہے جس کی حیثیت مستقل شخص قانونی کی ہوتی ہے ، یہ ادارے کا مملوک اور اس کا ذیلی شعبہ نہیں ہوتا۔نیز اس ٹرسٹ کی تحویل میں دی گئی رقم کو ادارہ اپنی ملکیت تصور نہیں کرتا اور نہ ہی اس رقم سے اپنے کسی نقصان کی تلافی کرنے کا اس کو اختیار ہوتا ہے ۔ ادارے کا مالکان حصص (شئیر ہولڈر ز ) کا بھی ا س میں کوئی حق نہیں سمجھا جاتا اورا س فنڈ کی رقم ملازمین کی درخواست پر ہی ٹرسٹ کی تحویل میں دینے کا پابند ہوتا ہے ۔ملازم سے درخواست فارم بعنوان :
APPLICATION FOR MEMBER SHIP &AUTHORIZATION TO DEDUCT PROVIDENT FUND
پر کروایاجاتا ہے جس میں ملازم ٹرسٹ منتظمین ( Trustees ) کو براہ راست مخاطب کرکے ان کو اختیار ات سپرد کرتا ہے ۔
لہذا اگر یہ معلومات درست ہوں اورواقعۃً ٹرسٹ علیحدہ مالی حیثیت کا حامل ، مستقل شخص قانونی ہو۔نیز ادارے نے ملازم کی درخواست کرنے پر ہی اس کی رقم ٹرسٹ کی تحویل میں دی ہو، اس سے پوچھے بغیر اپنی طرف سے یہ رقم فنڈ کی تحویل میں نہ دی ہو تو اس صورت میں یہ ٹرسٹ ملازمین کا وکیل ونمائندے سمجھاجائے گا اور ٹرسٹ کا قبضہ ملازمین کا قبضہ سمجھاجائے گا لہذا ملازمین پران کے پراویڈنٹ فنڈ کی رقم کی زکوٰۃ لازم ہوگی۔
نعم قد یقال : لو علمنا ان ھذا المال ملک الموظفین لما وجیت الزکاۃ فی ھذہ الصورۃ ایضاً لان شرط وجوب الزکاۃ ھو ان یکون المال مملوکا ملکا تاما ای یکون مملوکا ہدا ورقبۃ وھذا المال ۔۔۔
فتح القدیر للکمال ابن الھمام ۔ ( 2/166)
رد المختار ۔ ( 2/266)
بدائع الصنائع ، دارالکتب ( 2/9)
ھدایۃ مع فتح القدیر للکمال ابن الھمام ( 2/168)
الفتاوی الھندیۃ۔رشیدیۃ۔ ( 3/13)
البحر الرائق ، دارالکتاب الاسلامی (6/129)
بدائع الصنائع ، دارالکتب العلمیۃ ۔ (6/83)
الفتاویٰ الھندیۃ،رشیدیۃ۔ (4/286)
پراویڈنٹ فنڈ پرز کوۃ وسود کا مسئلہ ( ص :24)
ضروری تنبیہ
اگر کوئی ملازم اپنی پراویڈنٹ کی رقم کو درخواست دے کر کسی بیمہ کمپنی میں منتقل کرادے یا یہ فنڈ ملازم کی رضامندی سے کسی مستقل کمیٹی کی تحویل میں دے دیاجائے جیسے کہ بعض غیرسرکاری کارخانوں میں ہوتا ہےتو ایسا ہے جیسے خود وصول کرکے بیمہ کمپنی یا کمیٹی کو دےے ۔ اس لیے اس رقم پرجو سود لگایاجائے وہ شرعاً سود ہی کے حکم میں ہے اور قطعاً حرام ہے ، کیونکہ اس صورت میں بیمہ کمپنی ا س کی وکیل کا قبضہ شرعاً موکل کا قبضہ ہوتا ہے اور کسی کمیٹی یا ٹرسٹ وغیرہ کی تحویل میں دی ہوئی رقم امانت ہے ، لہذا اس کی زکوٰۃ ادا کرنا اسی وقت فرض ہے، وصول موقوف نہیں ۔
واللہ المستعان وعلیہ التکلان وھو سبحانہ وتعالیٰ اعلم
بندہ محمد شفیع عفا اللہ عنہ
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء دارالعلوم کراچی
عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/554995334869716/