سوال:کسی کے پاس تین لاکھ کا موبائل ہے تو وہ صاحب نصاب ہوگا یا نہیں؟
الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ جو چیزیں تجارت کے لیے نہ ہوں تو ان پر زکوۃ واجب نہیں ہوتی چاہے استعمال میں آئیں یا نہ آئیں ۔ سوال میں مذکور صورت میں موبائل گو بہت مہنگا ہے لیکن تجارت کے لیے نہیں ہے اس لیے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 262):
“فارغ (عن حاجته الأصلية) لأن المشغول بها كالمعدوم. وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقا كثيابه أو تقديرا كدينه …… (فلا زكاة على ….. ثياب البدن…. وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها.”
الفتاوى الهندية (1/ 191):
“وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان”.
فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب