سوال: مرد اور عورت کی نماز میں کچھ فرق ہے یا نہیں اور ا گر فرق ہے تو یہ فرق حدیث سے ثابت ہے یا پھر قیاس سے کیونکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ قیاس سے ثابت ہے اور یہ قیاس درست نہیں ہے ۔ برائے مہربانی اس مسئلہ کے بارے میں راہنمائی فرمائیں ۔
فتویٰ نمبر:126
جواب: عورتوں اور مردوں کی نماز میں بعض احکام میں فرق ہے ، عورتوں کے لیے ایسا طریقہ رکھاگیا ہے جس میں زیادہ ستر ہو اور یہ طریقہ فقہاء سے نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان سے ثابت ہے چنانچہ کتاب الفتاویٰ میں ہے :
چونکہ عورتوں کے لیے زیادہ سے زیادہ ستر مطلوب ہے اس لیے احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں اور عورتوں کے طریقہ نماز میں تھوڑا سا فرق رکھاگیا ہے اور عورتوں کو نسبتاً زیادہ ساتر طریقہ پر نماز پڑھنے کا حکم دیاگیاہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
” اذا جلست المراۃ للصلوۃ وضعت فخذھا الاخریٰ واذا سجدت الصقت بطنھا من فخذھا کاستر مایکون یکون لھا ” ( سنن بیہقی :22/ 223)
ترجمہ : جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے ، اور سجدہ کرے تو پیٹ کو رانوں سے چپکالے تاکہ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ پردہ ہوجائے “
اسی طرح بیٹھک کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم ا کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں پہلے عورتیں چار زانوں بیٹھ کر نماز پڑھتی تھیں پھر انہیں خوب سمٹ کر یعنی کولہوں پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم دیاگیا ۔
کن یسترلعن ثم امرن ان یخفضن
یعنی یستوین جالسات علی اوراکھن ( جامع المسانید )
اس لیے صحیح یہ ہے کہ نماز کی بعض کینیات میں مردوں اور عورتوں میں فرق رکھاگیاہے اور یہی آئمہ اربعہ ، امام ابو حنیفہ ،امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد اور اکثر سلف صالحین کا مسلک ہے ۔ ( کتاب الفتاویٰ :3/ 118)