تبدیل ماہیت اہم مسائل وفتاوی
مصنوعات کی تیاری میں خنزیر کا استعمال :
موجودہ زمانہ میں مصنوعات کی تیاری میں بڑے پیمانے پر عروج ہوا ہے ، اوران میں ایسی چیزیں استعمال کرنے کا رواج عام ہوا ہے جن میں سے ہر ایک امت مسلمہ کے لئے حلال نہیں ہے ، بالخصوص خنزیر کو مصنوعات کی تیاری میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے ، اس کے گوشت وپوشت ، ہڈی اور اس سے تیار ہونے والے جلاٹین کا بہت زیادہ استعمال ہے ، اس لئے اس کا حکم جاننا اور مصنوعات کے استعمال سے پہلے اس کی تحقیق کرنا امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے تاکہ وہ لاعلمی میں کسی حرام اور ناپاک چیزکو استعمال کرنے میں مبتلا نہ ہو۔
خنزیر کا استعمال:
خنزیر کی ذات چونکہ سراپا نجس ہے ، اس لئے اس کی کھال دباغت کے بعد بھی پاک نہیں ہوتی، جیسا کہ فقہاء نے اس کی وضاحت فرمائی ہے موسوعۃ فقہیہ میں ہے :
{اتّفق الفقهاء على أنّه لا يطهر جلد الخنزير بالدّباغ ولا يجوز الانتفاع به لأنّه نجس العين ، والدّباغ كالحياة ، فكما أنّ الحياة لا تدفع النّجاسة عنه ، فكذا الدّباغ}( الموسوعة الفقہیہه ۲۰؍ ۳۴)
’’فقہاء کا اتفاق ہے کہ خنزیر کی کھال دباغت سے پاک نہیں ہوتی ہے اور اس سے انتفاع جائز نہیں ہے ؛ اس لئے کہ وہ نجس العین ہے، اور دباغت حیات کی طرح ہے تو جس طرح حیات اس سے نجاست کو دور نہیں کرتی اسی طرح دباغت بھی اس سے نجاست کو دور نہیں کرسکتی‘‘
اس لئے جن مصنوعات کی تیاری میں خنزیر کی کھال کو استعمال کیا جاتا ہے اس کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے ، موجودہ زمانہ میں اس کی کھال سے جیکٹ، دستانے ، بیگ، بیلٹ وغیرہ تیار کئے جاتے ہیں ، مسلمانوں کے لئے ان کا استعمال جائز نہیں ہے، نیزعورتوں کے سینے کے کینسر کے علاج میں بھی خنزیر کی کھال کو استعمال کیا جاتا ہے ، اور خنزیر کی کھال سے بنے ہوئے غلاف کو اس پر ایسا لگایا جاتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ عورت کی جلد میں تبدیل ہوکر اس کا جزء بن جاتا ہے ۔
اسی طرح دل کے مریضوں کے لئے دل کا ’’والو‘‘ بھی خنزیر سے بنایا جاتا ہے ، جو ڈاکٹروں کے بقول دیگر ’’والو‘‘ کے بنسبت زیادہ بہتر ہوتا ہے ، اس لئے کہ دیگر’’ والو‘‘ میں اس کے اطراف خون جمع ہوتا رہتا ہے، جس کی تلافی کے لئے پوری زندگی مخصوص کی قسم دوائیاں استعمال کرنی ہوتی ہے ۔
عورتوں کے سینے کے کینسر کے علاج میں اس غلاف کا استعمال اور مریض قلب کے علاج میں اس سے بنے ہوئے ’’والو‘‘ کا استعمال عام حالات میں جب کہ اس کا حلال وجائز متبادل موجود ہے جس سے مرض کو دور کیا جاسکتا ہے ، جائز نہیں ہے ۔کیونکہ کسی حرام سے علاج کی اجازت اس وقت ہوتی ہےجب کہ حلال ذریعہ اور حلال دوا سے علاج ممکن نہ ہو، یااس دوا سے ناقابل تحمل منفی اثرات مریض پر پڑتے ہوں، رد المحتار میں ہے:
{يجوز للعليل شرب البول والدم والميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن فيه شفاءه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه} (رد المحتار: ۵؍۲۲۸)
بیمار کے لئے بطور دوا پیشاب خون اور مردار کو استعمال کرنا اس وقت جائز ہے جب کہ کسی مسلمان طبیب نے اسے کہا ہو کہ اس میں شفاء ہے اور وہ اس کا متبادل کو ئی مباح نہ پائے۔
اسی طرح موجودہ زمانہ میں اس کے بال سے برش بھی تیار کئے جاتے ہیں اس کے بال سے تیار کیا جانے والے برش استعمال کرنا بھی درست نہیں ، چاہے وہ صالون وغیرہ میں تجمیل کے آلے کے طور پر استعمال کیا جائے،یا انسانی محترم اور پاکیزہ عضو منہ کی صفائی کے لئے ہو، جہاں اس کے استعمال میں طبعی کراہت بھی موجود ہے ۔اسی طرح پینٹ کرنے کے لئے بہت سے اچھے اور عمدہ برش پلاسٹک وغیرہ سے بنے ہوئے ملتے ہیں جن سے پینٹ کرنے کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے اس لئے اس ضرورت میں بھی اس کے استعمال کی گنجائش نہیں ہے، فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں:
’’خنزیر چوں کہ اپنے تمام اجزاء کے ساتھ ناپاک اور ناقابل تطہیر ہے ،نیز دیواروں کو پینٹ کرنے کے لئے پلاسٹک وغیرہ کے برش بھی دستیاب ہیں اس لئے یہ کوئی ضرورت بھی نہیں ہے ، اور قاعدہ یہ ہے کہ ناپاک شیٔ کا استعمال جس طرح جائز نہیں اسی طرح اس کو فروخت کرنا درست نہیں،لہذا خنزیرکے بالوں کے برش نہ فروخت کرنا درست ہے نہ خریدنااور نہ استعمال کرنا‘‘ (کتاب الفتاوی : ۵؍۲۷۶)
غذائی مصنوعات اور دواؤں میں خنزیر اور مردار جانوروں کی کھال اور ہڈی سے تیار کئے جانے والے جلاٹین کےاستعمال کی گنجائش ہے ؛کیونکہ اس میں حقیقت تبدیل ہوکر نئی شیٔ بن جاتی ہے،اور اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نےماہرین ومفتیان کرام کی تحقیق کے بعد یہی فیصلہ کیا ہے ۔ مجمع الفقہ الاسلامی الہند کے فیصلہ کی عبارت یہ ہے :
’’ شریعت نے جن اشیاء کو حرام قرار دیا ہے اگر ان کی حقیقت اور ماہیت تبدیل ہوجائے تو ان کا سابق حکم باقی نہیں رہتا ، کسی شیٔ کے وہ خصوصی اور بنیادی اوصاف جن سے اس شیٔ کی شناخت ہوتی ہے وہی اس شیٔ کی حقیقت وماہیت ہیں، اکیڈمی کے سامنے فنی ماہرین کے ذریعہ جو تحقیق سامنے آئی ہے ، اس کے مطابق جلاٹین میں ان جانوروں کی کھالوں اور ہڈیوں کی حقیقت باقی نہیں رہتی ہے جن کے کولاجن سے جلاٹین بنایا جاتا ہے ، بلکہ وہ ایک نئی حقیقت کے ساتھ نئی چیز ہوجاتی ہے ، اس لئے اس کے استعمال کی گنجائش ہے‘‘ ( نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے: ۲۱۲)
(از مفتی محمد عارف باللہ القاسمی)
ناشر : دارالریان کراتشی