سوال:السلام علیکم
مرحوم نے ایک بیٹے کو کاروبار کرواکر دیا بعد میں وہ بیٹا بد تمیزی کرنے اور نافرمانی کر نے لگا تو مرحوم اس سے اپنی رقم کے طلبگار تھے۔
کچھ مال تجارت اس نے دے دیا اور باقی کا کوئی حساب نہیں
مرحوم نے یہاں مفتی صاحب سے بھی رابطہ کیا مکمل بات بتائی انہوں نے فرمایا کیا آپ معاف نہیں کرسکتے بیٹے کو؟ تو مرحوم نے فرمایا دنیا کے لیے تو کردوں گا مگر آخرت میں لوں گامیں اس سے۔
کیا اب اس کاروباری مال یا جو بھی رقم تھی اس کو مرحوم کے ترکے میں شمار کیا جائے گا یا اس بیٹے کی ملکیت کہلائے گا سب؟ کیونکہ مرحوم تو دستبردار ہوگئے ایک طرح سے اور وراثت میں شامل کرنے پر فساد کا اندیشہ ہے۔ کیونکہ جو والد سے ایسا رویہ اختیار کرسکتا ہے پیسے کے لیے وہ بھائی کے ساتھ کیا کرےگا۔
ہو سکے تو جلد رہنمائی فرمادیجیے پریشانی میں ہے درخواست گزار۔
مرحوم کا ایک گھر ہے جس میں بیوہ اور بیٹوں کی رہائش ساتھ ہے اور ایک جگہ ہے جس میں مرحوم کے بہن بھائی بھی وارث ہیں اور وہ مرحوم کے دو بھائی اور بیٹے رقبے کے لحاظ سے کم زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔
ورثاء میں بیوہ اور دو بیٹے ہیں۔
تنقیح: مرحوم کے دوسرے گھر میں ان کے بہن بھائی بھی وارث ہیں، اس بات سے کیا مراد ہے؟
جواب تنقیح:مرحوم کے والد کا ترکہ مکمل تقسیم نہیں کیا گیا تھا دوکانیں ہیں چھوٹی بڑی جس میں مرحوم کے بھائی اور بیٹے اپنا الگ الگ کاروبار چلارہے ہیں۔
الجواب باسم ملھم الصواب
مذکورہ صورت میں مرحوم نے جو کاروبار بیٹے کے نام کردیا تھا وہ اب بیٹے کی ملکیت ہے اس میں میراث جاری نہیں ہوگی۔
اس کے علاوہ جو گھر مرحوم کے نام پہ تھا وہ انہی کی ملکیت شمار ہوگا اور اس کی مالیت لگوا کر تمام ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصص کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
نیز جب مرحوم کے والد صاحب کا ترکہ تقسیم ہوگا تو اس میں جو مرحوم کا حصہ ہے وہ بھی ورثاء میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہوگا۔
والمراد من الترکۃ ما ترکہ المیت خالیًا عن تعلق حق الغیر بعینہ۔ (تبیین الحقائق / کتاب الفرائض ۷؍۴۷۱ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
فقط۔ واللہ خیر الوارثین