سوال:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ایسا مریض جو سر کے اشارے سے بھی نماز نہ پڑھ سکے اور اس سے نماز ساقط ہوگئی ہو اور کئی سال سے اس حال میں ہو کہ تندرستی کی کوئی امید نہ ہو کیا اس کے روزے بھی ساقط ہو جائیں گے یا ان کا فدیہ دینا ہوگا ؟
الجواب باسم ملہم الصواب
ایسا مریض جس کی عقل قائم اور ہوش وحواس بحال ہوں یعنی بات کو سمجھتا ہو نیز صبح سے شام تک بھوک ،پیاس برداشت کر سکتا ہو تو اس پر روزہ رکھنا لازم ہو جاتا ہے، اگر ایسے شخص کو صحت نہیں ملی اور اسی مرض میں انتقال کرگیا ہو، اور اپنی نماز روزوں کے حوالہ سے وصیت کر گیا ہو اور مال بھی چھوڑا ہو تو ورثاء پر اس کی وصیت کو ایک تہائی مال سے پوری کرنا ضروری ہوگا، اور اگر وصیت نہ کی ہو البتہ مال چھوڑا ہو تو ورثاء پر اس کے روزوں کے فدیہ کی ادائیگی اگرچہ لازم نہیں، تاہم اگر تمام ورثاء عاقل ،بالغ ہوں تو باہمی رضامندی سے یا کوئی ایک وارث خوش دلی سے اپنے حصہ میں سے فدیہ ادا کرنا چاہے تو یہ میت کے ساتھ حسن سلوک ہوگا ۔
اور اگر ہوش و حواس ہی قائم نہ ہوں تو پھر روزے کی فرضیت کے ساتھ فدیہ بھی ساقط ہو جائے گا۔
حوالہ جات:
1.رد المحتار:
( قوله وعليه صلوات فائتة إلخ ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء ، فيلزمه الإيصاء بها وإلا فلا يلزمه وإن قلت ، بأن كانت دون ست صلوات ، لقوله عليه الصلاة والسلام { فإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه } وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة ، وتمامه في الإمداد.(رد المحتار:5/ 332)
2.کذا فی بدائع الصنائع :
ﻭاﻟﻨﺎﺋﻢ ﺑﺨﻼﻑ اﻟﺠﻨﻮﻥ اﻟﻤﺴﺘﻮﻋﺐ ﻓﺈﻥ ﻫﻨﺎﻙ ﻓﻲ ﺇﻳﺠﺎﺏ اﻟﻘﻀﺎء ﺣﺮﺟﺎ؛ ﻷﻥ اﻟﺠﻨﻮﻥ اﻟﻤﺴﺘﻮﻋﺐ ﻗﻠﻤﺎ ﻳﺰﻭﻝ ﺑﺨﻼﻑ اﻹﻏﻤﺎء، ﻭاﻟﻨﻮﻡ ﺇﺫا اﺳﺘﻮﻋﺐ ﻷﻥ اﺳﺘﻴﻌﺎﺑﻪ ﻧﺎﺩﺭ، ﻭاﻟﻨﺎﺩﺭ ﻣﻠﺤﻖ ﺑﺎﻟﻌﺪﻡ ﺑﺨﻼﻑ اﻟﺠﻨﻮﻥ ﻓﺈﻥ اﺳﺘﻴﻌﺎﺑﻪ ﻟﻴﺲ ﺑﻨﺎﺩﺭ، ﻭﻳﺴﺘﻮﻱ اﻟﺠﻮاﺏ ﻓﻲ ﻭﺟﻮﺏ ﻗﻀﺎء ﻣﺎ ﻣﻀﻰ ﻋﻨﺪ ﺃﺻﺤﺎﺑﻨﺎ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﻮﻥ اﻟﻌﺎﺭﺽ ﻣﺎ ﺇﺫا ﺃﻓﺎﻕ ﻓﻲ ﻭﺳﻂ اﻟﺸﻬﺮ، ﺃﻭ ﻓﻲ ﺃﻭﻟﻪ ﺣﺘﻰ ﻟﻮ ﺟﻦ ﻗﺒﻞ اﻟﺸﻬﺮ ﺛﻢ ﺃﻓﺎﻕ ﻓﻲ ﺁﺧﺮ ﻳﻮﻡ ﻣﻨﻪ ﻳﻠﺰﻣﻪ ﻗﻀﺎء ﺟﻤﻴﻊ اﻟﺸﻬﺮ۔
(ج : 2، ص :89، ط : دار الکتب العلمیہ)
3.الفتاوى الهندية (1/ 208)
“المجنون إذا أفاق في بعض الشهر يلزمه قضاء ما مضى، وإن استوعب جنونه كل الشهر لم يقضه، وفي ظاهر الرواية لم يفصل بين الجنون الطارئ على البلوغ والمقارن له كذا في محيط السرخسي”.
واللہ اعلم بالصواب
28 جمادی الثانی 1443
1 فروری 2022