سوال: عورت اور مرد کی نماز میں جو فرق ہیں اس فرق کی دلائل سے ہمیں آگاہ کر دیجئے۔
فتویٰ نمبر:229
الجواب باسم ملھم الصواب
عورتوں کی نما ز کا طریقہ بالکل مردوں کی نماز کی طرح ھونا ثابت نہیں، بلکہ خواتین کا طریقہ نماز مردوں سے جدا ہونا بہت سی احادیث اور آثار تابعین سے ثابت ہے اور چاروں ائمہ فقہ امام اعظم ابو حنیفہ ،امام مالک،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اس پر متفق ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ،جب ان سے پوچھا گیا کہ خواتین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کس طرح نماز پڑھا کرتی تھیں، تو انہوں نے فر مایا کہ پہلے چار زانو ہو کر بیٹھتی تھیں ،پھر انہیں حکم دیا کہ خوب سمٹ کر نماز ادا کریں۔ (جامع المسانید ص400ج1)
ایک دوسری حدیث میں کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا طریقہ سکھایا ،تو فرمایا کہ :اے وائل بن حجر! جب تم نماز شروع کرو
تو اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے ہاتھ چھاتیوں تک اٹھائے-(مجمع الزوائد 103ج2)
یزید ابن ابی حبیب رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں کے پاس سےگذرے جو نماز پڑھ رہیں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ :جب تم سجدہ کرو تو اہنے جسم کےبعض حصوں کو زمین سے چمٹا دو اس لیے کہ اس میں عورت مرد کے مانند نہیں ہے (السنن للبھیقی ص223ج2اعلا السنن بحوالہ مراسیل ابی داؤد ص19ج3)
امام بخاری کےاستاذ ابو بکر بن ابی شیبہ فرماتے ییں کہ :میں نے حضرت عطاء رحمہ اللہ سے سنا کہ ان سے عورت کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ نماز میں ہاتھ کیسے اٹھائے، تو انہوں نے فرمایا کی اپنی چھاتی تک اور فرمایا نماز میں اپنے ہاتھوں کو اس طرح اٹھائے جس طرح مرداٹھاتے ہیں اور انہوں نے جب اس بات کواشارہ سے بتایا تو اپنے ہاتھوں کو کافی پست کیا اور ان دونوں کو اچھی طرح ملایا اور فرمایا کہ نمازمیں عورت کا طریقہ مردوں کی طرح نہیں ہے-(المصنف لابی بکر بن ابی شیبہ، ص239ج1)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا:جب عورت سجدہ کرے تو سرین کے بل بیٹھے اور اپنی رانوں کو ملا لے -(بھیقی ص223ج2)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عورت کی نماز کے متعلق پوچھا گیاتو فرمایا کہ :سب اعضاء کوملا لے اورسرین کے بل بیٹھے۔
مذکورہ بالا احادیث اورآثار صحابہ وتابعین سے عورتوں کی نماز کا طریقہ مردوں کی نماز سے واضح طور پر مختلف ہونا ثابت ہوتا ہےاور یہ طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے آج تک اس امت میں متفق علیہ اور عملا متواتر ہے -آج تک کسی صحابی یا تابعی یا دیگر فقھاء امت کا کوئی ایسا فتوی نظر نہیں آتا جس میں عورتوں کی نماز کو مردوں کی نماز کے مطابق قرار دیا ہو-
عن ابن عمر رضي الله عنه انه سئل كيف كان النساء يصلين علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم قال كن يتربصن ثم امرن ان يحتفزن۔
ر عن يزيد بن ابي حبيب ان رسول الله صلي الله عليه وسلم مر علي امراتين تصليان فقال اذا سجدتما فضما بعض اللحم الي الارض فان المراة ليست في ذلك كالرجل ۔
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا جلست المراة في الصلاة وضعت فخذها علي فخذها الاخري واذا سجدت الصقت بطنها في فخذيها كاستر ما يكون لها وان
الله ينظر اليها ويقول يا ملائکتی! اشهدكم اني قد غفرت لها۔
قال ابوبكر بن ابي شيبة سمعت عطاء سئل عن المراة كيف، ترفع يديها في الصلاة قال حذو ثدييها ( وقال ايضا بعد اسطر) لا ترفع بذلك يديها كالرجل واشار فخفض يديه جدا وجمعها اليه جدا وقال ان المراة هيئة ليست للرجل ۔
واللہ اعلم بالصواب
زوجہ ارشد
9 فروری 2017
11 جمادی الاولی 1438
صفہ آن لائن کورسز