مقامات مقدسہ میں تصویر کشی کا حکم

کیا فرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسائل کے متعلق کہ

(1) آجکل یہ بات  بہت عام ہوگئی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو مختلف میسیج  بھیج کر اس کو آگے فارورڈ کرنے کی درخواست ہیں،بلکہ بعض اوقات اس کی فضیلت بھی بیان کرتے ہیں ، یا وہ  میسیج کسی اچھی اور خیر کی بات پر  مشتمل ہے ۔ سوال یہ  ہے کہ  کیا   ان  میسیج  کو فارورڈ  کرنے  کے لیے  شریعت میں کوئی حد بندی ہے؟یا مطلقا ًاس کو فارورڈ کرنے کی اجازت ہے؟

(Videography)(2) آج کل لوگوں میں ڈیجیٹل موبائل اور دیگر جدید ذرائع سے ویڈیو گرافی

کا استعمال بہت ہی زیادہ عام ہوگیا ہے اور لوگ اپنا شوق پورا کرنے لیے متبرک و مقدس مقامات مثلا ًحرمین شریفین اور مساجد وغیرہ میں بھی ویڈیوز بنانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بہت سے لوگ محض یادگار یا محض تفریحی مشاغل کے  طور  پر ویڈیوگرافی  (videography)میں منہمک نظر آتے ہیں۔ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

(3) بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ چونکہ ڈیجیٹل  عکس بندی یا ڈجیٹل ویڈیوز کے جائز  و ناجائز ہونے کے متعلق اہلِ فتوی حضرات کے نزدیک اختلاف ہے اس لیے اس کی گنجائش ہے،کیا یہ رائے درست ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون ملھم الصواب

(1) کوئی اچھی یا خیر کی بات دوسروں تک پنہچانے اور اس کی اشاعت و تبلیغ کے ذریعہ دوسروں کی اصلاح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جائز ذرائع اور جائز طریقے اختیار کیے جائیں ؛ کیونکہ دوسروں کی اصلاح یا نیکی کی بات دوسروں تک پہنچانے  کے لیے ناجائز طریقہ  اختیار کرنا یا خود کسی گناہ میں مبتلا ہونا جائز نہیں۔

         لہذا کوئی تحریری پیغام (میسیج)، آڈیو پیغام یا ویڈیو خواہ کتنی ہی نصیحت آموز باتوں پر مشتمل کیوں نہ ہویا اس میں خواہ کتنی ہی نصیحت آموز اورعبرت آموز باتوں کی طرف دعوت دی گئی ہو ، اگر اس کے اندر مندرجہ ذیل چیزیں پائی جائیں تو اس کو آگے بھیجنا ، دوسروں کے ساتھ شئیر کرنا اور دوسروں کو آگے فارورڈ کرنا جائز نہیں۔اگر کسی نے ایسا پیغام دوسروں کو بھیجا جو ناجائز یا گناہ کی باتوں پر مشتمل ہے تو اس پیغام کو بھیجنے کی وجہ سے بھیجنے والا نہ صرف گناہگار ہوگا بلکہ جب وہ شخص جس کو یہ بھیجا گیا  اس گناہ میں مبتلا ہوگا  تو اس کے گناہ میں بھیجنے والا بھی برابر کا شریک ہوگا۔

وہ چیزیں درج ذیل ہیں:

(الف) ویڈیو پیغام نا محرم مرد یا نامحرم خواتین کی تصویر پر مشتمل ہو۔

(ب) پیغام ( میسیج) کسی کی غیبت پر یا کسی دوسرے گناہ کی بات پر مشتمل ہو۔

(ج) اس میں کسی کا  مذاق اڑایا گیا ہو۔

(د)غیر مستند اور موضوع احادیث پر مشتمل ہو۔

(ہ) بطور حدیث کوئی بات بیان کی گئی ہو ، مگر نہ اس کا مستند حوالہ ہو اور نہ مستند ہونے کا یقین ہو ۔

یہ چند اصولی باتیں ہیں جن کی پابندی بہت ضروری ہے۔ ورنہ میسیج فارورڈ کرنا جائز نہیں۔

(2) اس بات میں واقعۃً کوئی شبہ نہیں ہے کہ آج کل لوگوں میں ڈیجیٹل کیمرہ، کیمرہ والے موبائل اور دیگر جدید ذرائع  سے ڈیجیٹل منظر کشی،ڈیجیٹل عکس بندی اور ویڈیو گرافی کا استعمال بہت ہی زیادہ عام ہوگیا ہے اور لوگ تمام شرعی حدود کو پس ِ پشت ڈال کر ، بلکہ تمام شرعی  حدود کو پامال کرتے ہوئے ناجائز ،حرام اور مکروہ امور کی عکس بندی ، اس کے لیے ناجائز طریقے کا ارتکاب اور محض اپنا شوق پورا کرنے کے لیے متبرک و مقدس مقامات کے تقدس و آداب کو پامال کرتے ہوئے ویڈیو بنانے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ بلکہ کسی حاجت و ضرورت کے بغیر محض یادگار یا محض تفریحی مشاغل کے طور پر مقاماتِ مقدسہ میں عکس بندی اور ویڈیو گرافی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔

     مساجد ہوں یا دیگر مقاماتِ مقدسہ ہر جگہ ویڈیوز اور منظر کشی کی بہتات نظر آتی ہے اور ویڈیوز کے شوقین لوگوں کو ان مقاماتِ مقدسہ  کی حرمت و آداب کو پامال کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے،حالانکہ مساجد سمیت تمام مقدس مقامات سب کے سب اللہ تعالی  کے شعائر  میں سے ہیں اور قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ میں اللہ تعالی کے شعائر کی تعظیم اور ان کو بے حرمتی سے بچانے  کی سختی سے تاکید کی گئی ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ اے ایمان والو! اللہ تعالی کے شعائر (نشانیوں) کی بے حرمتی نہ کرو ۔۔۔۔۔۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو ، بے شک اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے۔ یعنی جن چیزوں کے ادب کا شریعت نے حکم دیا ، یا جن چیزوں کے ادب کی حفاظت کے لیے اللہ تعالی  نے کچھ احکام مقرر کیے ہیں ان احکام کی خلاف ورزی کرکے یا ان کا ان کا تقدس پامال کرکہ ان کی بے ادبی نہ کرو۔ نیز قرآن و حدیث کی رو سے مساجد کو صرف اللہ جل جلالہ کی عبادت اور ذکر و تسبیح کے لیے مختص کرنے کا حکم ہے۔ انہیں کسی دنیوی مقاصد یا تفریحی مشاغل کے لیے استعمال کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ جبکہ کسی دینی یا دنیوی حاجت و ضرورت کے بغیر محض اپنا شوق پورا کرنے کے لیے یا محض تفریح مشغلہ کے طور پر یا محض یادگار کے طور پر ویڈیو بنانا ایک فعلِ عبث اور فضول کام ہے جس سے مساجد کو پاک رکھنے کا  شرعا تاکیدی حکم ہے ۔ لہذا ہر مسلمان پر ان باتوں کی پابندی لازم ہے۔

(3)  مذکور لوگوں کی بات درست نہیں کیونکہ مقدس مقامات کی حرمت و احترام کی پامالی یا ویڈیوز بنانے کے لیے کسی امرِ ناجائز یا ممنوع ِ شرع کا ارتکاب ایسے امور ہیں جن کے ناجائز ہونے میں کسی بھی عالم ِدین کا اختلاف نہیں ، بلکہ ان کا عدم جواز تمام اہلِ علم کے نزدیک متفق علیہ ہے اور ان کا ان کا ناجائز ہونا واضح دلائل شرعیہ سے ثابت ہے ۔ان کا ناجائز ہونا  ڈیجیٹل تصویر کو تصویرِمحرم قرار دینے پر ہرگز موقوف نہیں ۔ لہذا یہ سمجھنا  درست نہیں کہ چونکہ ڈیجیٹل عکس بندی یا ڈیجیٹل ویڈیوز اہلِ فتوی حضرات کے ہاں مختلف فیہ مسئلہ ہے اس لیے مقامات مقدسہ کی حرمت کی پامالی کرکے حرمین شریفین میں بھی ویڈیو بنانے کی گنجائش ہے۔۔۔۔۔۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ دار العلوم کراچی

 

اپنا تبصرہ بھیجیں