سوال: مندوب، مستحب،نفل اور تطوع میں کوئی فرق ہےیا نہیں؟
جواب : سب سے پہلے ان سب کی تعریف ملاحظہ ہو:
مستحب کے لغوی معنی، پسندیدہ بات، اصطلاح میں حکم شرعی کا ایک خاص درجہ جو مطلوب تو ہوتا ہے لیکن نہ واجب ہوتا ہے نہ سنت.
مندوب کے لغوی معنی ہیں: میت کی تعریفیں گنوانا. چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کی فضیلت اور تعریفیں گنوائی ہیں اس لیے اسے اصطلاح میں مندوب کہتے ہیں۔
نفل کے لغوی معنی ہیں :”اضافی چیز” اسے نفل اس لیے کہتے ہیں کہ یہ فرض سے اضافی چیز ہے۔
تطوع: وہ کام جسے کرنے یا نہ کرنے کا آدمی کو اختیار ہوتا ہے اس پر لازم نہیں ہوتا۔
علامہ قہستانی فرماتے ہیں کہ اس کا درجہ سنن زوائد اور سنن غیر مؤکدہ سے کم ہوتا ہے۔
اب جواب ملاحظہ ہو:
اگر ان تعریفات پر غور کیا جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مستحب، مندوب ، نفل اور تطوع وہ کام ہیں جن کے کرنے کی بندوں کو تر غیب دی گئی ہے اگر بندہ وہ کام کرے گا تو ثواب ملے گا ،نہیں کرے گا تو کوئی گناہ نہیں، لہذا اس کا اعتبار کرتے ہوئے ان میں کوئی فرق نہیں۔
١) قوله:(و يسمى مندوبا” وادبا”) زاد غيره ؛ ونفلا” و تطوعا” وقد جرى على ما علىه الا صوليون وهو المختار من عدم الفرق بين المستحب والمندوب والادب كما في حاشيه نوع افندي على الدرر فيسمى مستحبا” من حيث ان الشارع يحبه و يوتره و مندوبا” من حيث انه بين ثوابه و فضيلة، من ندب الميت وهو تعديد محاسنه ونفلا” من حيث انه زايد على الفرض و الواجب ويزيد به الثواب و تطوعا” من حيث ان فاعله يفعله تبرعا” من غير ان يؤمر به حتما”… من شرح شيخ اسماعيل عن
البرجندي ،وقد يطلق عليه اسم السنة و صرح القهستاني بانه دون سنن الزوايد .قال في الامداد ،و حكمه الثواب على الفعل وعدم اللوم على الترك
( فتاوى شاميه: ج ١ ص ٢٦٦)
٢) ومن المندوبات احياء ليلة العيدين ، والنصف من شعبان، والعشر الأخير من رمضان، والاول من ذي الحجة، وفي شاميه تحته على الصفحة ٢٦
( الدر المختار: ج٢ ص٢٥,٢٦)
٣) ..( قيل باب إدراك الفريضه) ولا يصلي الوتر والتطوع بجماعة خارج رمضان ان يكره ذلك على سبيل التداعي بان يقتدي أربعة بواحد كما في….
(الدر المختار : ج٣ ص٤٨)
٤) والأفضل في النفل غير التراويح المنزل الالخوف شغل عنها ( فتاوى شاميه: ج١ ص٤٥٨)
٥) قلت ويؤيده أيضا” ما في البدايع من قوله ان الجماعة في التطوع ليست بسنة الا في قيام رمضان اه……وفيه والنفل بالجماعة غير مستحب، لأنه لم تفعله الصحابة غير رمضان.
( رد المحتار: ج٢ ص٤٨,٤٩..طبع أيچ۔ايم سعيد)
والله اعلم بالصواب
٢٢/٨/٢٠٢١ ء
١٣/١/١٤٤٣ ھ