مناقبِ صحابہ
صحابی سے مرادوہ شخص ہے جس کو بحالتِ اسلام میں براہِ راست رسول اللہﷺکے دیدارکاشرف نصیب ہوا ہو،اورپھروہ مسلسل تادمِ آخردینِ اسلام پرقائم رہا،اوراسی حالت میں اس کی وفات ہوئی۔اہلِ علم کااس پراتفاق واجماع ہے کہ امت کاکوئی اعلیٰ ترین فردبھی کسی ادنیٰ صحابی کے مقام ومرتبے کونہیں پہنچ سکتا،کیونکہ حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ مقدس وبرگزیدہ ترین افرادتھے جنہوں نے رسول اللہﷺسے براہِ راست استفادہ وکسبِ فیض کیا، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کادین سیکھا،اللہ کاکلام سیکھا،حکمت ودانش سیکھی،آپﷺکی تعلیم وتربیت اورفیضِ نظرکی بدولت یہ حضرات پاکیزہ وبرگزیدہ ترین اشخاص بن گئے،ان کے دلوں میں ایمان اس قدرراسخ ومضبوط ہوگیاکہ کوئی چیزانہیں کسی صورت راہِ حق سے برگشتہ ومنحرف نہیں کرسکتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ان حضرات کے ایمان کورہتی دنیاتک تمام بنی نوعِ انسان کیلئے مثال اورمعیارقراردیاگیاہے ، جیساکہ ارشادِربانی ہے: {فَاِن آمَنُوا بِمِثلِ مَا آمنتُم بِہٖ فَقَداھتَدَوا)۔(البقرہ 137) ترجمہ:(اگروہ لوگ اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو،تب وہ راہِ راست پرآجائیں گے)۔یعنی اصل اورحقیقی ایمان تو وہی ہے جوحضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں موجزن تھا۔
اسی طرح قرآن کریم میں حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کوخطاب کرتے ہوئے یہ ارشادِربانی ہوا:{وَلٰکِنَّ اللَّہَ حَبَّبَ اِلَیکُمُ الاِیمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِي قُلُوبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیکُمُ الکُفرَ وَالفُسُوقَ وَالعِصیَانَ أُولٓئِک ھُمُ الرَّاشِدُونَ فَضْلاً مِّنَ اللّہِ وَنِعمَۃً وَاللّہُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ}( الحجرات 7) ترجمہ:( اللہ تعالیٰ نے ہی ایمان کوتمہارے دلوں میں محبوب بنادیاہے، اوراسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے۔اورکفرکو ٗ اورگناہ کو ٗ اورنافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنادیاہے ٗ یہی لوگ راہ یافتہ ہیں،اللہ کے انعام واحسان سے ۔اوراللہ دانااورباحکمت ہے)۔
یقینایہ آیت خالق ارض وسماء کی طرف سے ان حضرات کے حق میں بہت بڑی گواہی ٗنیزان کے ایمان اوررشدوہدایت پرہونے کی واضح ترین دلیل ہے۔اس سلسلے میں مزیدقابلِ ذکریہ کہ خودقرآن کریم میں ان حضرات کواللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے ہمیشہ کیلئے رضامندی وخوشنودی کی خوشخبری سے شادکام کیاگیاہے،جیساکہ ارشادِر بانی ہے: {رَضِيَ اللّہُ عَنھُم وَرَضُوا عَنہُ}(البینہ 8)’’اللہ ان سے راضی اورخوش ٗ اوریہ اللہ سے راضی اورخوش ہیں)۔
اسی طرح رسول اللہﷺکاارشادہے: (خَیرُ النَّاسِ قَرْنِي ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَھُم ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَھُم)(بخاری)” بہترین لوگ وہ ہیں جومیرے زمانے میں ہیں ،پھروہ لوگ جو اُن کے بعد ،اورپھروہ لوگ جو اُن کے بعد۔
نیزارشادِنبوی ہے: (لَاتَسُبُّوا أصْحَابِي، فَلَوأنَّ أَحَدَکُم أنْفَقَ مِثلَ أُحُدٍ ذَھَباً مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِھِم وَلَا نَصِیْفَہٗ)(بخاری)’’میرے ساتھیوں کوبرانہ کہو، کیونکہ تم میں سے اگرکوئی اُحدپہاڑکے برابرسونااللہ کی راہ میں خرچ کرے ٗ تب بھی وہ اُس اجروثواب کا مستحق نہیں بن سکتاجومیرے ساتھیوں میں سے محض مٹھی بھر(اناج) اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کیلئے ہے‘‘۔
اسی طرح ارشادِنبوی ہے: (اَللّہَ اَللّہَ فِي أصْحَابِي ، لَاتَتَّخِذُوھُم غَرَضاً مِن بَعْدِي ، فَمَن أحَبَّھُم فَبِحُبِّي أحَبَّھُم ، وَمَن أبْغضَھُم فَبِبُغْضِي أَبْغَضَھُم ، وَمَن آذَاھُم فَقَدْ آذَانِي ، وَمَن آذَانِي فَقَد آذَیٰ اللّہَ، وَمَن آذَیٰ اللّہَ فَیُوْشِکُ أن یَأخُذَہ)”(ترمذی) میرے ساتھیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو،تم میرے بعدانہیں [اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل کی خاطر]نشانہ نہ بنانا، جوکوئی ان سے محبت رکھتاہے وہ دراصل مجھ سے محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھتاہے،اورجوکوئی ان سے بغض رکھتاہے وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتاہے۔جس نے انہیں کوئی اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی،اورجس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے اللہ کو اذیت پہنچائی،اورجس نے اللہ کواذیت پہنچائی ٗ اللہ عنقریب اس کی گرفت فرمائے گا‘‘۔
٭…حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ’’فرقِ مراتب‘‘
یقیناحضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تمام جماعت ہی برگزیدہ ترین ہے ۔البتہ اہلِ علم نے ان میں باہم ’’فرقِ مراتب ‘‘اور’’تفاضل‘‘بیان کیاہے،جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
٭مجموعی طورپرتمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سب سے بلندترین مقام ومرتبہ ان دس خوش نصیب ترین حضرات کاہے جنہیں ایک موقع پرخودرسول اللہﷺنے ایک ساتھ جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایا،اوراسی مناسبت سے انہیں’’عشرہ مبشرہ‘‘ یا ’’العشرۃ المبشرون بالجنۃ‘‘ کے لقب سے یادکیاجاتاہے۔
’’عشرہ مبشرہ‘‘میں سے بھی بلندترین مقام ومرتبہ چار ’’خلفائے راشدین‘‘ کا ہے ۔پھرحضرات ’’خلفائے راشدین‘‘میں فرقِ مراتب ان کی ترتیب کے مطابق ہے، یعنی خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ، خلیفۂ دوم حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ، خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، اورخلیفۂ چہارم حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۔
ہجرتِ مدینہ سے قبل دینِ اسلام قبول کرنے والوں کامقام ومرتبہ ہجرت کے بعداسلام قبول کرنے والوں سے بلندہے۔
غزوۂ بدرمیں شرکت کرنے والوں کامقام ومرتبہ دوسروں سے زیادہ ہے۔
بیعتِ رضوان کے موقع پرجوحضرات شریک تھے ،ان کامقام ومرتبہ دوسروں سے بڑھا ہوا ہے،نیزان کیلئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے بطورِخاص رضامندی وخوشنودی کااعلان ہے۔
فتحِ مکہ سے قبل مشرف باسلام ہونے والوں کامقام ومرتبہ فتحِ مکہ کے بعدمسلمان ہونے والوں سے زیادہ ہے۔جیساکہ قرآن کریم میں ارشادہے: {لَایَسْتَوِيْ مِنْکُم مَن أنْفَقَ مِن قَبْلِ الفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولٓئِکَ أَعْظَمُ دَرَجَۃً مِنَ الّذِینَ أَنْفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَکُلّاً وَّعَدَ اللّہُ الحُسْنَیٰ وَاللّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ}(الحدید 10)”تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے[ اللہ کی راہ میں] خرچ کیاہے اورقتال کیا، وہ دوسروں کے برابرنہیں،بلکہ وہ اُن سے بہت بڑے درجے کے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد[ اللہ کی راہ میں] خرچ کیا اور قتال کیا، البتہ بھلائی کاوعدہ تواللہ نے ان سب سے کیاہے،جوکچھ تم کرتے ہو ٗ اللہ اس سے باخبرہے)۔
(اگلی پوسٹ میں عشرہ مبشرہ کا تفصیلی تعارف ذکر کیا جائے گا۔)