سوال:میرا سوال یہ ہے کہ میری ناک معمولی سی موٹی ااور آگےسے چوڑی ہے جس کی وجہ سےمیں ہمیشہ احساس کمتری میں مبتلا رہتا ہوں ۔اپنی ناک کی وجہ سے میں نئے لوگوں سے ملنے سے اکثر کتراتا ہوں ۔اب کچھ عرصہ بعد میری شادی ہونے والی ہے ۔میں چاہتاہوں کہ میری بیوی کو میں جاذب نظر آؤں اور میں خود بھی اس کے سامنے پر اعتماد رہوں ۔کیا ایسی صورت میں ناک کی معمولی سی سرجری کروانا گناہ اور حرام ہے؟
سائل:زین جاوید
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدا ومصلیا
اگر جسم میں پیدائشی طور پر ایسا ظاہری نقص ہو جو عام فطری ہیئت سے ہٹ کر ہو یا کسی حادثےکی وجہ سےایسا عیب پیدا ہوگیا ہواور اس نقص کو زائل کرنے اور جسم کے اعضاء کو معتاد ہیئت پر کرنےکی غرض سےسرجری کروائی جائےتو شرعا اس کی گنجائش ہے بشرطیکہ کسی دوسرےانسان کا کوئی جزو بدن نہ لگایا جائےاورنہ کسی حرام امر کا ارتکاب کیا جائے ، لیکن محض حسن وخوبصورتی میں اضافہ کے لیے یا دوسروں کی نظر میں خود کوجاذب نظر بنانے کے لیےسرجری کرانا مکروہ ا ور نا پسندیدہ عمل ہے ۔
لہذا صورت مذکورہ میں اگر آپ کی ناک معمولی سی موٹی اورچوڑی ہے تو زیادہ فکر مند اور احساس کمتری میں مبتلا ہونےضرورت نہیں،چونکہ انسان کی قیمت دراصل اس کی صلاحیت وکردار سے لگتی ہے ، خوبصورتی اور بد صورتی عارضی چیز ہے لہذاسائل کوچاہیے کہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں ،بلکہ اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کا استحضار کرکے شکر ادا کریں ۔
کما فی صحيح البخاري (7/ 166)
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «لَعَنَ اللَّهُ الوَاشِمَاتِ وَالمُسْتَوْشِمَاتِ، وَالمُتَنَمِّصَاتِ وَالمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ، المُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ» مَا لِي لاَ أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ.
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2819)
(وَالْمُتَفَلِّجَاتِ) : بِكَسْرِ اللَّامِ الْمُشَدَّدَةِ، وَهِيَ الَّتِي تَطْلُبُ الْفَلَجَ، وَهُوَ بِالتَّحْرِيكِ فُرْجَةٌ مَا بَيْنَ الثَّنَايَا وَالرُّبَاعِيَّاتِ، وَالْفَرْقُ بَيْنَ السِّنِينَ عَلَى مَا فِي النِّهَايَةِ، وَالْمُرَادُ بِهِنَّ النِّسَاءُ اللَّاتِي تَفْعَلُ ذَلِكَ بِأَسْنَانِهِنَّ رَغْبَةً فِي التَّحْسِينِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: هِيَ الَّتِي تُبَاعِدُ مَا بَيْنَ الثَّنَايَا وَالرُّبَاعِيَّاتِ بِتَرْقِيقِ الْأَسْنَانِ بِنَحْوِ الْمِبْرَدِ، وَقِيلَ: هِيَ الَّتِي تُرَقِّقُ الْأَسْنَانَ وَتُزَيِّنُهَا، وَاللَّامُ فِي قَوْلِهِ: (لِلْحُسْنِ) : لِلتَّعْلِيلِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَكُونَ التَّنَازُعُ فِيهِ بَيْنَ الْأَفْعَالِ الْمَذْكُورَةِ، وَالْأَظْهَرُ أَنْ يَتَعَلَّقَ بِالْأَخِيرِ. قَالَ النَّوَوِيُّ: فِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ الْحَرَامَ هُوَ الْمَفْعُولُ لِطَلَبِ الْحُسْنِ، أَمَّا لَوِ احْتَاجَتْ إِلَيْهِ لِعِلَاجٍ أَوْ عَيْبٍ فِي السِّنِّ وَنَحْوِهِ فَلَا بَأْسَ بِهِ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
محمد رفیق غفرلہ ولوالدیہ
نور محمد ریسرچ سینٹر
دھوراجی کراچی
5جمادی الاولی 1441
1 جنوری 2020ا