مالِ تجارت پر زکوٰۃ کا حکم
مالِ تجارت اس مال کو کہتے ہیں جو تجارت کی نیت سے خریدا گیا ہو اور خریدنے کے بعد بھی تجارت کی نیت باقی ہو۔ چنانچہ اگر کسی نے اپنے گھر کے خرچ کے لیے یا شادی وغیرہ کے لیے چاول خریدے، پھران چاولوں کی تجارت کا ارادہ ہوگیا، تو یہ مالِ تجارت نہیں ہو گااورنہ اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
سونے چاندی کے سوا اور جتنی چیزیں ہیں، جیسے: لوہا، تانبا، پیتل، گلٹ وغیرہ،ان چیزوں کے بنے ہوئے برتن،کپڑے، جوتے وغیرہ اور اس کے علاوہ جو کچھ سامان ہو، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس سے کوئی شخص تجارت کرتاہو تو اور اس سامان کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونے کے برابر ہے تو جب سال گزر جائے تو اس سامان تجارت میں زکوٰۃ واجب ہے اور اگر اتنا نہ ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب نہیں اور اگر وہ مالِ تجارت کے لیے نہیں،تو اس میں زکوٰۃ واجب نہیں،چاہے جتنا مال ہو، اگر ہزاروں روپے کا مال ہو تب بھی زکوٰۃ واجب نہیں۔
اگر کوئی شخص تجارت کی نیت سے پلاٹ خریدے اوریہی نیت باقی رہے توپلاٹ کی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہو گی، دوسرے اموال تجارت کے ساتھ ملا کر اس کی زکوٰۃ بھی ادا کی جائے اور اگر دوسرے اموال نہ ہوں تو بھی پلاٹ کی قیمت نصاب کے بقدر ہونے کی صورت میں زکوٰۃ واجب ہے۔ ( أحسن الفتاوی : ۴/۳۰۵ )