سوال:کیافرماتےہیں فقہاءِشرع ِمتین وحامیان دین اس بارےمیں کہ زید ایک ایسےملک میں اپناکاروباراوررہن سہن رکھتاہےجہاں انگریزکفارکی حکومت ہے (مرادکینیڈاہے)رہائش کیلئےکرایہ کامکان مہنگاپڑتاہےزید اگرچہ اپنےذاتی پیسےسےمکان خریدسکتاہےلیکن اسکےخمیازےمیں جومحکمہ ٹیکس والےمسلط ہوجائیں گےاورناقابل ِ برداشت ومتواتر ٹیکس لاگوکرتےرہیں گے اس سب کچھ کوبھگتنےکیلئےنہ زیدمتحمل ہےاورنہ ہی اسکا کاروباردوسری طرف جولوگ وہاں کےبینک سےقرضہ لیکرمکان خرید تےہیں پھر اقساط میں سود کیساتھ قرضہ واپس کرتےہیں انکومحکمہ ٹیکس والےتنگ نہیں کرتے لہذا اکثر لوگ بینک سےقرضہ لیکرہی مکان خرید تےہیں
اب سوال یہ ہےکہ اپنے مال سےمکان خرید کرخود کونقصان اورتفتیشی مصائب کے سپرد کرنےکی مجبوری سےبچنےکی اس (بینک سےقرضہ کی )صورت کواختیار کرنےکی اجازت ہے یانہیں ؟حالانکہ نقصان سےبچناواجب ہوتاہے،نیزاپنےلئےالجھنیں اورپریشانیاں پیدا کرنا کسی بھی مذہب میں پسندیدہ نہیں
خلاصہ یہ کہ زید کیلئےوہاں ذاتی مکان بھی ضروری ہےاورٹیکس والوں کےظلم سے بچنا بھی لازمی ہے جس کی صورت صرف بینک سےقرضہ لیناہی ہے یہ احترامات ِفراواں درخواست ہےکہ اس مسئلہ کاتفصیلی حل اوربینک سےقرضہ لینےکی ضرورت کومدِّنظررکھتے ہوئےراہنمائی فرمائیں ؟ واجرکم علی اللہ
الجواب حامدا ومصلیا
(۱) واضح رہےکہ دارالحرب یعنی کفارکےممالک میں رہناجبکہ شعائراسلام پرعمل کرنا بھی ممکن ہوشریعت کی نظرمیں پسندیدہ نہیں ،چنانچہ حتّی الامکان وہاں رہنےسےاجتناب کرنےکی ضرورت ہے،تاہم اگرحالات کےپیش ِ نظروہاں رہناضروری ہواورکسی دوسرے اسلامی ممالک منتقل ہونےمیں سخت دشواری ہوتوسود سےتوپھربھی اپنےآپکوبچانا انتہائی ضروری ہے،کیونکہ سود لینااوردینادونوں حرام ہیں ،پس صورتِ مسئولہ میں بہترتویہی ہےکہ اپنےذاتی پیسےسےہی مکان تعمیرکیاجائے لیکن اگرواقعی مجبوری ہوجیساکہ سوال میں ذکرکی گئی ہےتوبدرجہ مجبوری بینک سےاتنی ہی مقدارمیں سودی قرض لینےکی گنجائش ہے(۱) کہ جتنی مقدارسےضرورت پوری ہوجائےاورجلدازجلد اس قرض کواتارنےکیساتھ توبہ و استغفار کرتےرہناچاہئے لہذاضرورت سےزیادہ لینایامحض تعیّش وآرام طلبی کیلئےایساکرنا ہرگزجائز نہیں ،نیزسودی معاملےمیں کم سےکم ملوّث ہونےکیلئےسائل کوچاہیےکہ ایسی صورت میں جس بینک سےقرض لےرہاہےاس بینک میں اپنااکاؤنٹ کھول لےاوراس اکاؤنٹ پربینک جو سود دےاس پرقبضہ کیے بغیرہی اسکواپنےسودی قرض کی ادائیگی کیلئےمختص کردے کہ بینک خود ہی اس سود سےاپناقرضہ وصول کرے۔
الأشباه والنظائر – حنفي – (1 / 114)
یجوزللمحتاج الاستقراض بالربح،
غمز عيون البصائر – (1 / 294)
يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح وذلك نحو أن يقترض عشرة دنانير مثلا ويجعل لربها شيئا معلوما في كل يوم ربحا،
التخريج
(۱)البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (6 / 137)
وَفِي الْقُنْيَةِ مِنْ الْكَرَاهِيَةِ يَجُوزُ لِلْمُحْتَاجِ الِاسْتِقْرَاضُ بِالرِّبْحِ اهـ.
مجلة مجمع الفقه الإسلامي – (2 / 10222)
وقد صرح بذلك بعض الفقهاء، فقالوا: يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح إن كان للأفراد ضرورة أو حاجة تبيح لهم هذه المعاملة وكان تقديرها مما يرجع إليهم وحدهم وهم مؤمنون بصيرون بدينهم فإن للأمة أيضا ضرورة أو حاجة كثيرا ما تدعو للاقتراض بالربح فالمزارعون كما نعلم تشتد حاجتهم في زراعاتهم وإنتاجهم إلى ما يهيؤون به الأرض والزراعة والحكومة كما نعلم تشتد حاجاتها إلى مصالح الأمة العامة وإلى ما تعد به العدة والتجار تشتد حاجاتهم إلى ما يستوردون به البضائع… ولا ريب أن الإسلام الذي يبني أحكامه على قاعدة اليسر ودفع الضرر يعطي الأمة في شخص هيآتها وأفرادها في قلة أن تقترض بالربح تحقيقا لتلك المصالح التي بها قوام الأمة وحفظ كيانها.