احادیث مبارکہ : عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ ” لا عدوی ولا طیرۃ ولاھامۃ ولا صفر ” ( بخاری ج 2 ص 857 )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا :” مرض کا لگ جانا ، الو اور صفر اور نحوست یہ سب بے حقیقت باتیں ہیں ۔”
عن جابر ( رضی اللہ عنہ) قال سمعت النبی ﷺ یقول لا عدوی ولا صفر ولا غول ” ( مسلم ج 2 ص231)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ فرماہے تھے :” مرض کا لگ جانا ، صفر اور غول بیابانی سب ( بے بنیاد ) خیالات ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں۔”
عن ابی ھریرۃ ( رضی اللہ عنہ) قال قال رسول اللہ ﷺ ” لاعدوی ولا ھامۃ ولا نوء ولا صفر۔” ( مسلم ج 2 ص 231)
حضرت ا بو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” مرض لا لگ جانا، الو ،ستارہ اور صفر یہ سب وہم پرستی کی باتیں ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں۔”
“صفر” اور بد فالی ، زمانہ جاہلیت میں :
زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا صفر کے لتعلق یہ گمان تھاکہ
1)اس ماہ میں بکثرت مصیبتیں ، آفتیں نازل ہوتی ہیں اور یہ مہینہ نحوست ، پریشانیوں اور مصائب والاہے ، نیز اہل عرب صفر کا مہینہ آنے سے دب فالی بھی لیا کرتے تھے ۔
2) بعض اہل علم عرب کا یہ گمان تھا کہ صفر سے مراد وہ سانپ ہے جو انسان کے پیٹ میں ہوتا ہے اور بھوک کی حالت میں انسان کے ڈستا اور کاٹتا ہے چنانچہ بھوک کی حالت میں جو تکلیف ہوتی ہے وہ اسی کے ڈسے سے ہوتی ہے۔
3۔بعض اہل عرب کا یہ نظریہ تھا کہ صفر سے مراد پیٹ کا وہ مرض یادرد ہے جو بھوک کی حالت میں اٹھتا اور بھڑکتا یا جوش مارتا ہے اور جس کے پیٹ میں ہوتا ہے بسا اوقات اس کو جان سے بھی مار دیتا ہے اور نیز اہل عرب اس کو خارش کے مرض والے سے بھی زیادہ متعدی مرض سمجھتے تھے ۔
4) بعض کے نزدیک صفر ان کیڑوں کو کہتے ہیں جو جگر اور پسلیوں کے سرے میں پیدا ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے انسان کا رنگ بالکل پیلا ہوجاتا ہے ( جس کو طب کی زبان میں ” یرقان کہاجاتاہے” ) اور بسا اوقات یہ مرض انسانی موت کا سبب بن جاتاہے ۔
اسلام نے ان تمام مذکورہ خیالات ونظریات کو باطل اور غلط قرار دیا ہے ۔ بلکہ ان ارشادات مبارکہ سےصفر کے حوالے سے قیامت تک پیدا ہونے والے تمام غلط خیالات وتصؤرات کی نفی ہوگئی ہے کیونکہ یہ ارشادات قیامت تک کے لیے ہیں ۔
ماہ صفر اور عصر حاضر کی جہالتیں :
آج کل بھی ماہ صفر کے متعلق عام لوگوں کے ذہن میں مختلف خیالات جمے ہوئے ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں :
1)شادی اور خوشی کی تقریبات نہ کرنا :
بعض لوگ ماہ صفر میں شادی بیاہ اور دیگر پر مسرت تقریبات منعقد کرنے اور اہم امور کا افتتاح کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور ہا کرتے ہیں کہ صفر میں کی ہوئی شادی صفر (زیرو) ہوگی ( یعنی ناکام ہوگی) اور اس کی وجہ عموماً ذہنوں میں یہ ہوتی ہے کہ صفر کا فیرو ز اللغات میں اس طرح لکھا ہے مہینا نامبارک اور منحوس مہینہ ہے چنانچہ صفر کا مہینہ گزرنے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر ربیع الاول کے مہینہ سے اپنی تقریبات شروع کر دیتے ہیں ۔ اگر کوئی اس مہینہ میں شادی کرے تو اسے بہت معیوب سمجھاجاتا ہے اور طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی ہیں حالانکہ یہ سوچ غلط ہے ۔ شریعت میں کہیں صفر کے مہینہ میں نکاح سے منع نہیں کیاگیا کیونکہ نکاح ایک اہم عبادت ہے اور عبادت سے کیسے منع کیاجاسکتا ہے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ ” بندہ نکاح کر کے اپنا آدھا دین محفوظ کر لیتا ہے ” ( مشکوۃ بحوالہ بیہقی )
ایک اور حدیث میں ہے کہ ” تم میں جو بھی حقوق زوجیت ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہووہ نکاح ضرور کرے کیونکہ اس سے نگاہ میں احتیاط آتی ہے اور شرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے ” ( بخاری ۔ مسلم ،ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ،ابن ماجہ )
ایک اور حدیث میں ہے کہ “نکاح میری سنت ہے اور جس نے میری سنت پر عمل نہیں کیا تو وہ مجھ میں سے نہیں ” ( ابن ماجہ )
ایک حدیث میں نکاح کوتمام انبیاء علیہم السلام کی سنت اورطریقہ بتلایا گیاہے ۔ ( ترمذی ، کتاب الطب )
لہذا اس مہینہ میں بھی نکاح کی عبادت کو انجام دینا چاہیے تاکہ ایک غلط عقیدہ کی تردید ہو جس میں اچھے کام کی عملی تبلیغ بھی ہے اور عملی تبلیغ کا ثواب بہت زیادہ ہے پھر جو لوگ ایسے وقت میں کہ جبکہ معاشرہ میں صفر کے مہینہ نکاح کے رواج کو تقریباً چھوڑ اجاچکا ہے، اس کار خیر کی بنیاد ڈالیں گے اور ایسے وقت جو لوگ صفر میں نکاح کے جائز اور عبادت ہونے کے مردہ طریقہ کو زندہ کریں گے وہ بہت بڑا اجر پانے کے مستحق ہوں گے ۔ حدیث شریف میں ہے :” جس نے میرے طریقہ پر عمل کیا میری امت کے فساد ( یعنی جہالت اور بدعات اور فسق وفجور ) کے غلبہ کے وقت اس کو سو شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا ” ( بیہقی ، مشکوۃ )
ایک اور حدیث میں ہے کہ ” جس نے اسلام میں اچھے طریقہ کی بنیاد ڈالی ( اور اچھا طریقہ جاری کیا جس کی بعد میں دوسروں نے پیروی کی ) تو اس شخص کو اس عمل کا ثواب حاصل ہوگا اور اس کے ( مرنے کے بعد) بھی جو اس پر عمل کریں گے ان سب کا ثواب حاصل ہوگا اور اس کے ( مرنے کے بعد) بھی جو اس پر عمل کریں گے ان سب کا ثواب اس کو حاصل ہوگا لیکن ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور جس شخص نے کسی برے طریقے کی بنیاد ڈالی ( برا طریقہ جاری کیا) تو اس پر اس برے طریقہ کا وبال ہوگا اور جو لوگ ( اس کی اتباع میں ) اس پر عمل کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہوگا لیکن ان دوسروں کے وبال میں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی ‘ ( مسلم ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ، احمد )
2) مٹی کے برتن توڑنا :
بعض لوگ اس دن گھروں میں اگر مٹی کے برتن ہوں تو ان کو توڑ دیتے ہیں ۔ اور اسی دن بعض لوگ چاندی کے چھلے اور تعویذات بنوا کر ماہ صفر کی نحوست ، مصیبتوں اور بیماریوں سے بچنے کی غرض سے پہنا کرتے ہیں ۔ یہ خالص وہم پرستی ہے جس کو ترک کرناواجب ہے۔
3)جنات اور بلاؤں کا آسمانوں سے نزول :
بعض علاقوں میں مشہور ہے کہ اس مہینہ میں لنگڑے ۔ لولے اور اندھے ۔ جنات آسمان سے اترتے ہیں اور چلنے والوں کو کہتے ہیں کہ بسم اللہ کر کے قدم رکھو کہیں جنات کا تکلیف نہ ہو۔ بعض لوگ اس مہینہ میں صندوقوں ، پیٹیوں اور درودیوار کو ڈنڈے مارتے ہیں تاکہ جنات بھاگ جائیں ۔ یہ سب بھی بے بنیاد باتیں ہیں ۔اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔
4۔ شروع کے تیرہ دن سخت ہیں :
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس مہینے کے ابتدائی تیرہ روز خاص طور پر بہت زیادہ سخت اور تیز یا بھاری ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ لوگ صفر کے مہینہ کی پہلی تاریخ سے لے کر تیرہ تاریخ تک کے دنوں کو خاص طور پر منحوس سمجھتے ہیں اور بعض جگہ اس مہینے کی تیرہ تاریخ کو چنے ابال کر یا چوری بناکر تقسیم کرتے ہیں تاکہ بلائیں ٹل جائیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان لوگوں کے ابتدائی تیرہ دنوں سے متعلق اس غلط خیال کی وجہ سے ہی اس مہینہ کو تیرہ تیزی کا مہینہ کہا جاتا ہو۔ یہ بھی شریعت پر زیادتی ہے ، حضور ﷺ نے ایسی تمام چیزوں کی نفی فرمادی ہے ۔
5۔قرآن خوانی : ماہ صفر کو منحوس سمجھنے کی وجہ سے بعض گھرانوں میں اجتماعی قرآن خوانی کا اس لیے اہتمام کرایا جاتاہے تاکہ اس مہینہ کی بلاؤں اور آفتوں سے حفاظت رہے ۔ا ول تو مروجہ طریقہ پر اجتماعی قرآن خوانی ہی ایک رسم محض بن کر رہ گئی ہے اور اس میں کئی خرابیاں جمع ہوگئی ہیں ، دوسرے مذکورہ بالانظریہ کی بنیاد پر قرآن خوانی کرنا اپنی ذات میں بھی جائز نہیں کیونکہ مذکورہ نظریہ ہی شرعاً باطل ہے کیونکہ شریعت نے واضح کردیاہے کہ اس مہینے میں نہ کوئی نحوست ہے نہ کوئی بلا ہے اور نہ کوئی جنات کا آسمانوں سے نزول ہوتاہے ۔
6۔آخری بدھ کی مخصوص نماز
ماہ صفر کے آخر ی بدھ کو ایک نماز بھی ادا کی جاتی ، جس کی ادائیگی کاایک مخصوص طریقہ یہ بیان کیاجاتا ہے کہ ماہ صفر کے آخری بدھ دو رکعت نماز، چاشت کے وقت ،ا س طرح ادا کی جائے کہ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد قل اللھم مالک الملک دو آیتیں پڑھیں اور دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد ( قل اسعوا اللہ او ادعوا الرحمن ) دو آیتیں پڑھیں اور سلام پھیرنے کے بعد نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجیں اور دعا کریں۔
اس طریقہ نماز نماز کی تخریج کے بعد حضرت حضرت علامہ عبدالحئی لکھنوی ؒ لکھتے ہیں کہ :
“اس قسم کی مخصوص طریقوں سے ادا کی جانے والی نمازوں کا حکم یہ ہے کہ اگر اس مخصوص طریقہ کی شریعت میں مخالفت موجود ہو تو کسی کے لیے ان منقول طریقوں والی نماز شریعت سے متصادم نہ ہو تو پھر ان طریقوں سے نماز ادا کرنا مخصوص شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے جائز نہیں۔ وہ شرائط یہ ہیں۔
1)ان نمازوں کو ادا کرنے والا ان کے لیے ایسا اہتمام نہ کرے ، جیسا کہ شرعاً ثابت شدہ نمازوں ( فرائض وواجبات وغیرہ) کے لیے کیا جاتاہے۔
2) ان نمازوں کو نبی علیہ السلام سے منقول نہ سمجھے ۔
3)ان نمازوں کے ثبوت کا عقیسدہ نہ رکھے ۔
4) ان نمازوں کو شریعت کے دیگر مستحبات وغیرہ کی طرح مستحب نہ سمجھے۔
5) ان نمازوں کا اس طرح التزام (اہتمام ) نہ کیاجائے جس کی شریعت کی طرف سے ممانعت ہوع، جاننا چاہیے کہ ہر مباح کام کو جب اپنے اوپر لازم کرلیاجائے ، تو وہ شرعاً مکروہ ہوجاتاہے ۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ موجودہ زمانے میں ایسے افراد معدوم ( نہ ہونے کے برابر ) ہیں جو مذکورہ شرائط کی پاسداری رکھ سکیں اور شرائط کی رعایت کے بغیر ان نمازوں کو ادا کرنے کا حکم اوپر گزرچکاہے کہ یہ عمل ” نیکی برباد ، گناہ لازم ” کا مصداق تو بن سکتاہے ، تقرب الی اللہ کا نہیں ۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیں القول الفصیل فی ھذا المقام :5/103/104 ادارۃ القرآن کراتشی )
7)آخری بدھ کا روزہ : حضرت مولانا محمد شفیع صاحب ؒ “امداد المتین ” میں ایک سوال کے جواب میں صفر کے آخری بدھ کے روزے کی شرعی حیثیت واضح کرتے ہیں ، جو ذیل میں نقل کیاجاتاہے ۔
سوال: ماہ صفر کا آخری چہار شنبہ بلاد ہند میں مشہور بایں طور ہے کہ اس دن خصوصیت سے نفلی روزہ رکھاجاتاہے اور شام کو کچوری یا حلوہ پکا کر کھایاجاتاہے ۔عوام اس کو ” کچوری روزہ “یا” پیر کا روزہ ” کہتے ہیں ، شرعاً اس کی کوئی اصل ہے یانہیں ؟
جواب: بالکل غلط اور بے اصل ہے، اس ( روزہ) کو خاص طور سے رکھنا بدعت اور ناجائز ہے ،نبی کریم ﷺ اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ اجمین سے کسی ایک ضعیف حدیث میں (بھی ) اس کا ثبوت بالتزام مروی نہیں اور یہیدلیل ہے اس کے بطلان وفساد اور بعدت ہونے کی کیونکہ کوئی عبادت ایسی نہیں، جو نبی اکرم ﷺ نے امت کو تعلیم کرنے سے بخل کیاہو ۔
(امدادالمفتین ، فصل فی صوم النذر وصوم النفل ، ص :416،دارالشاعت)
ماہ صفر کے ساتھ “مظفر ” لگانے کی وجہ :
عام طور پر صفر کےساتھ مظفر یا خیر کا لفاظ لگایاجاتاہے یعنی کہاجاتاہے ” صفر المظفر ” یا صفر الخیر ” ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ مظفر کے معنیٰ کامیابی وکامرانی والی چیز کے ہیں ۔ زمانہ جاہلیت میں کیونکہ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھاجاتا تھااور آج بھی اس مہینہ کو بہت سے لوگ منحوس بلکہ آسمان سے بلائیں اور آفتیں نازل ہونے والا سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے اس مہینہ میں خوشی کی بہت سی چیزوں کو منحوس یا معیوب سمجھتے ہیں جبکہ اسلامی اعتبار سے اس مہینہ سے کوئی نحوست وابستہ نہیں اور اسی وجہ سے احادیث مبارکہ میں اس مہینہ کے ساتھ نحوست وابستہ ہونے کی سختی کے ساتھ تردید کی گئی ہے ۔ اس لیے صفر کے ساتھ ” مظفر یا ” خیر ” کا لفظ لگاکر ” صفر المظفر ” صفر الخیر” کہاجاتا ہے تاکہ اس کو منحوس اور شروآفت والا مہینہ نہ سمجھاجائے بلکہ کامیابی والا اوعر بامراد نیز خیر کا مہینہ سمجاھ جائے ۔ اور اس مہینے میں انجام دیئے جانے والے کاموں کو نامراد اور منحوس سمجھنے کا تصور اور نظریہ ذہنوں سے نکل جائے ۔